سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(82) آمین بالجہر کی شرعی حیثیت

  • 22847
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 649

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آمین بالجہر کہنا کیسا ہے اور بالجہر کہنے سے سامعین کی نماز میں نقصان آتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہری نماز میں سورت فاتحہ کے اختتام پر آمین بالجہر کہنا احادیثِ شریفہ سے ثابت ہے۔ حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ احادیث درج ہیں، اس وقت صرف ایک دو حدیث ترمذی شریف سے لکھی جاتی ہے، اگر اور ضرورت ہو تو مطلع فرمائیے۔ ترمذی شریف (۱/ ۳۴ چھاپہ دہلی) میں ہے:

"حدثنا بندار نا یحییٰ بن سعید و عبد الرحمن بن مھدي قالا: نا سفیان عن سلمة بن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر قال: سمعت النبي صلی اللہ علیہ وسلم  قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، وقال: آمین، ومد بھا صوتہ۔

قال أبو عیسیٰ: حدیث وائل بن حجر حدیث حسن، وبہ یقول غیر واحد من أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم  والتابعین ومن بعدھم، یرون أن یرفع الرجل صوتہ بالتأمین ولا یخفیھا، وبہ یقول الشافعي و أحمد و إسحاق، قال أبو عیسیٰ: وسألت أبا زرعة عن ھذا الحدیث، فقال: حدیث سفیان في ھذا أصح، قال: روی العلاء بن صالح الأسدي عن سلمة بن کھیل نحو روایة سفیان۔ قال أبو عیسیٰ: ثنا أبو بکر محمد بن أبان نا عبد الله بن نمیر عن العلاء بن صالح الأسدي عن سلمة بن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم  نحو حدیث سفیان عن سلمة بن کھیل" [1]انتھی

مذکورہ بالا روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ

’’وائل بن حجر صحابی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنے کان سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا کہ آپ نے﴿غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْن﴾ پڑھا تو آمین کہا اور لفظ ’’آمین‘‘ کے ساتھ اپنی آواز کھینچی۔ یعنی آواز کھینچ کر آمین کہا۔‘‘

اہلِ حدیث و امام شافعی و امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ و دیگر اکابرِ دین انھیں احادیثِ شریفہ کی پیروی سے جہری نماز میں سورۂ فاتحہ کے اختتام پر آمین جہر سے کہتے ہیں اور جب آمین بالجہر کہنا احادیثِ شریفہ سے ثابت ہے تو آمین بالجہر کہنے سے سامعین کی نماز میں نقصان کیونکر آسکتا ہے؟ یہ بات کسی امام سے بھی منقول نہیں ہے، نہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  سے اور نہ کسی امام سے ائمہ دین میں اور نہ کسی معتبر کتاب میں یہ بات لکھی ہے۔ بعض لوگ جو مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کی کوشش کرنا نہیں چاہتے، ایسی بے اصل باتیں کہہ کر بجائے اتفاق کے نزاع و اختلاف پھیلا دیتے ہیں، جس پر اس کے برے برے نتیجے مترتب ہوجاتے ہیں اور جب ان سے پوچھیے کہ یہ مسئلہ کس معتبر کتاب میں لکھا ہے یا کس امام نے بتایا ہے تو کچھ نشان و پتا نہیں دیتے اور نہ دے سکتے ہیں۔   الله تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے کہ اتفاق و اتحاد کے حصول میں کوشش کریں۔

 


[1]                سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۴۹)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:200

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ