السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسد نماز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز نہیں ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف سے اسی قدر ثابت ہے کہ نماز میں قرآن پڑھو۔ زبانی پڑھو یا دیکھ کر پڑھو، اس کی کوئی قید نہیں۔ سورت مزمل رکوع (۲) میں ہے:﴿فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾ [المزمل: ﴿٢٠﴾] [تو قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو] مشکوۃ شریف (ص: ۶۷ چھاپہ انصاری دہلی) میں ہے: ((ثم اقرأ بما تیسر معک من القرآن )) (متفق علیہ) [پس قرآن سے پڑھو، جو تمھیں بہ آسانی یاد ہو]
پس جس طرح نماز میں زبانی قرآن پڑھنے سے نماز صحیح ہوتی ہے، اسی طرح دیکھ کر پڑھنے سے صحیح ہوگی اور مطلق کی تقیید رائے اور قیاس سے جائز نہیں ہے۔ اصول میں یہ مسلمہ مسئلے ہے: ’’المطلق یجري علی إطلاقہ‘‘[1] [مطلق اپنے اطلاق پر باقی رہتا ہے] اسی اصولی مسئلے پر بہت سے فقہی مسائل کی بنا ہے، ازاں جملہ ایک یہ مسئلہ ہے کہ جب مظاہر [ظِہار کرنے والا شخص] کفارۂ ظِہار میں اثنائے اطعام اپنی زوجہ سے، جس سے ظِہار کیا تھا، جماع کر لے تو اس پر استینافِ اِطعام واجب نہیں ہے، کیونکہ قرآن مجید میں کفارہ ظِہار میں اِطعام کا لفظ مطلق ہے، پس قیاساً علی الصوم اس میں قید عدمِ جماع کی لگانی، جائز نہیں۔
اصول شاشی (ص: ۹ چھاپہ مجتبائی دہلی) میں ہے:
’’قال أبو حنیفة: المظاھر إذا جامع امرأتہ في خلال الإطعام لا یستأنف الإطعام، لأن الکتاب مطلق في حق الإطعام، فلا یزاد علیہ شرط عدم المسیس، بالقیاس علی الصوم، بل المطلق یجري علی إطلاقہ والمقید علی تقییدہ‘‘[2]
[امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظِہار کرنے والا جب کفارۂ ظِہار کا کھانا کھلانے کے دوران میں اپنی بیوی سے جماع کر لے تو اس پر نئے سرے سے کھانا کھلانا واجب نہیں ہے، کیونکہ کتاب الله میں مطلق کھانا کھلانے کا حکم آیا ہے، لہٰذا روزے پر قیاس کر کے (جس میں روزے مکمل کیے بغیر جماع نہ کرنے کی شرط ہے) اس پر عورت سے جماع نہ کرنے کی شرط کا اضافہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر باقی رہے گا اور مقید اپنی تقیید پر]
امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ یعنی ان کے نزدیک بھی نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز اور مکروہ نہیں اور صاحبین (امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ ) کے نزدیک بھی مفسدِ نماز نہیں، اگر اہلِ کتاب کے ساتھ تشبیہ نہ ہو اور بلا تشبیہ اہلِ کتاب ان کے نزدیک بھی مکروہ نہیں۔
در مختار مع رد المحتار (۱/ ۴۶۰ چھاپہ مصر) میں ہے:
’’وجوزہ الشافعي بلا کراھۃ، وھما بھا للتشبیہ بأھل الکتاب أي إن قصدہ فإن التشبہ بھم لا یکرہ في کل شيء، بل في المذموم، وفیما یقصد بہ التشبہ‘‘ اھ۔
یعنی امام شافعی رحمہ اللہ نے نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا بلا کراہت جائز رکھا ہے اور امام ابو یوسف و امام محمد نے بکراہت جائز رکھا ہے، کیونکہ اس میں اہلِ کتاب کے ساتھ تشبہ ہے، لیکن یہ کراہت اس وقت ہے کہ جب اہلِ کتاب کے ساتھ تشبہ کا قصد ہو، ورنہ کراہت نہیں ہے، کیونکہ تشبہ اہلِ کتاب کے ساتھ ہر بات میں مکروہ نہیں، بلکہ اسی بات میں مکروہ ہے جو مذموم ہے اور جس میں اہلِ کتاب کے ساتھ تشبہ کا قصد ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور بہتیرے تابعین کے نزدیک بھی بلا کراہت جائز ہے۔ صحیح بخاری مع فتح الباری (۱/ ۳۸۶ چھاپہ دہلی) میں ہے:
’’وکانت عائشة یؤمھا عبدھا ذکوان من المصحف‘‘ اھ۔
یعنی حضرت عائشہ کے غلام ذکوان ان کی امامت کرتے تھے تو قرآن دیکھ کر پڑھتے تھے۔
اس اثر معلق کو ابو داود اور ابن ابی شیبہ اور امام شافعی اور عبدالرزاق نے ابن ابی ملیکہ سے موصولاً روایت کیا ہے اور امام شافعی اور عبدالرزاق کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اس نماز میں جس میں ذکوان امامت کرتے تھے، صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نہیں تھیں، بلکہ بہت سے صحابہ اور تابعین شریک رہتے تھے۔ فتح الباری میں ہے:
’’وصلہ [ابن] أبي داود في کتاب المصاحف من طریق أیوب عن ابن أبي ملیکة أن عائشة رضی اللہ عنہا کان یؤمھا غلامھا ذکوان في المصحف، ووصلہ ابن أبي شیبة قال: حدثنا وکیع عن ھشام بن عروة عن أبي بکر بن أبي ملیکة عن عائشة أنھا أعتقت غلاما لھا عن دبر، فکان یؤمھا في رمضان في المصحف، ووصلہ الشافعي و عبد الرزاق من طریق أخری، عن ابن أبي ملیکة أنہ کان یأتي عائشة بأعلی الوادي، ھو وأبوہ وعبید بن عمر والمسور بن مخرمة وناس کثیر فیؤمھم أبو عمرو مولیٰ عائشة، وھو یومئذ غلام لم یعتق، و أبو عمرو المذکور ھو ذکوان‘‘[3]اھ۔
[(ابن) ابی داود نے کتاب المصاحف میں اسے ایوب کے واسطے سے موصول بیان کیا ہے، وہ ابن ابی ملیکہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ذکوان مصحف سے پڑھ کر ان کی امامت کراتا تھا۔ ابن ابی شیبہ نے بھی اسے موصول بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں وکیع نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا ہے، انھوں نے ابوبکر بن ابی ملیکہ سے روایت کیا اور انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ان کا ایک غلام رمضان میں مصحف سے ان کی امامت کرواتا تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور عبدالرزاق رحمہ اللہ نے ابن ابی ملیکہ سے ایک اور سند کے ساتھ اسے موصول بیان کیا ہے کہ وہ خود، اس کا والد، عبید بن عمر، مسور بن مخرمہ اور بہت سے لوگ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کا غلام ا بو عمرو ان کی امامت کرواتا تھا، جو اس وقت آزاد نہیں ہوا تھا۔ یہ ابو عمرو ذکوان ہی ہے]
صاحبین کا استدلال بھی اسی اثر سے ہے۔ نہایہ شرح ہدایہ میں ہے:
"واحتجا بما روي من حدیث ذکوان أنہ کان یؤم عائشة في رمضان وکان یقرأ من المصحف" اھ۔
[دونوں (صاحبین) نے اس روایت سے دلیل لی ہے، جو ذکوان کے بارے میں مروی ہے کہ وہ رمضان میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی امامت کرایا کرتا تھا اور وہ قرآن مجید دیکھ کر پڑھتا تھا]
ایک دلیل صاحبین کی یہ بھی ہے کہ قرآن پڑھنا ایک عبادت ہے اور قرآن کا دیکھنا ایک دوسری عبادت ہے تو قرآن دیکھ کر پڑھنا ایک عبادت کو دوسری عبارت کے ساتھ ملا دینا ہے۔ ہدایہ میں ہے: ’’وقالا: ھي تامة لأنہ عبادة انضافت إلی عبادة‘‘[4] [ (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام جب مصحف سے دیکھ کر پڑھے تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے جبکہ) صاحبین نے کہا ہے کہ اس کی نماز مکمل ہوجاتی ہے، کیونکہ یہ (مصحف میں دیکھنا) ایک عبادت ہے جو دوسری عبادت (قرآن پڑھنا) کے ساتھ مل گئی ہے] عنایہ میں ہے:
"قولہ: انضافت إلیٰ عبادة أي ضمت إلیٰ عبادة، وھي النظر في المصحف، لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم : (( أعطوا أعینکم من العبادۃ حظھا )) قیل: وما حظھا من العبادة؟ قال: (( النظر في المصحف ))" [5] اھ۔[6]
[اس کے قول ’’انضافت إلی عبادۃ‘‘ کا مطلب ہے کہ وہ ایک دوسری عبادت کے ساتھ مل گئی ہے اور وہ ہے مصحف میں دیکھنا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اپنی آنکھوں کو عبادت میں سے ان کا حصہ عطا کرو۔‘‘ پوچھا گیا کہ عبادت میں سے ان کا حصہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(ان کا حصہ) مصحف میں دیکھنا ہے۔‘‘]
جو لوگ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کو مفسدِ نماز کہتے ہیں، ایک دلیل ان کی یہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھے گا تو ضرور اس کو قرآن ہاتھ میں لیے رہنا اور اس میں دیکھنا اور ورقوں کو الٹنا پڑے گا اور یہ مجموع عمل کثیر ہے اور عملِ کثیر مفسدِ نماز ہے۔ اس دلیل کا جواب کئی وجہوں سے ہے:
اول یہ کہ کلام اس میں ہے کہ نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنا مفسدِ نماز ہے یا نہیں؟ اس میں قرآن کا ہاتھ میں لیے رہنا اور اس کے اوراق کا الٹنا کیا لازم ہے؟ جائز ہے کہ قرآن کسی چیز پر کھلا ہوا رکھا ہو اور نمازی اس کو دیکھ کر پڑھے، اس میں نہ قرآن کو ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہے اور نہ اس کے ورقوں کے الٹنے کی اور ممکن ہے کہ کھلا ہوا قرآن ہاتھ میں لیے رہے اور صرف اسی قدر پڑھے، جس قدر سامنے کھلا ہوا ہے اور اس صورت میں اوراق الٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ قرآن دیکھ کر پڑھنے میں ضرور یہ تینوں کام کرنے پڑیں گے، لیکن یہ کیا ضرور ہے کہ یہ تینوں کام تابڑ توڑ کرنے پڑیں؟ جائز ہے کہ قرآن ہاتھ میں لیے رہے اور دیکھنے میں اس کے ورق الٹنے میں فصل پڑے۔ اگر یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ یہ تینوں کام تابڑ توڑ کرنے پڑیں گے، لیکن یہ بات کہ ان تینوں کام کا مجموعہ عملِ کثیر ہے، ممنوع ہے، اس لیے کہ عملِ کثیر میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ در مختار میں لکھا ہے کہ اس میں پانچ قول ہیں: منجملہ ان کے ایک یہ قول ہے کہ عملِ کثیر وہ عمل ہے، جس کو دور سے دیکھنے والا بلا تردد جانے کہ اس کام کے کرنے والے نماز میں نہیں ہیں۔ در مختار میں اسی قول کو ’’ أصح‘‘ لکھا ہے۔[7]
دوسرا قول یہ ہے کہ جو کام عادتاً دونوں ہاتھ سے کیا جائے، وہ عملِ کثیر ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ تین حرکتیں جو تابڑ توڑ ہوں، وہ عملِ کثیر ہیں۔ چوتھا قول یہ ہے کہ جس فعل کو فاعل بالقصد کرے، اس طرح پر کہ اس کے لیے مجلس علیحدہ کرے، وہ عملِ کثیر ہے۔ پانچواں یہ کہ نمازی کی رائے کی طرف مفوض ہے، یعنی جس عمل کو نمازی کثیر جانے، وہ عملِ کثیر ہے۔ ’’در مختار مع رد المحتار‘‘ (۱/ ۴۶۰ چھاپہ مصر) میں ہے:
’’وفیہ أقوال خمسة، أصحھا: ما لا یشک بسببہ الناظر من بعید في فاعلہ أنہ لیس فیھا، وإن شک أنہ فیھا أم لا، فقلیل‘‘اھ۔
[اس میں پانچ اقوال ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ فاعل کا وہ عمل جس کے سبب دور سے دیکھنے والے کو یہ شک نہ ہو کہ وہ اس (نماز) کا حصہ نہیں ہے۔ اگر اسے یہ شک گزرے کہ آیا یہ عمل نماز کا حصہ ہے یا نہیں تو وہ عمل، عملِ قلیل شمار ہوگا]
’’رد المحتار‘‘ میں ہے:
’’القول الثاني: ما یعمل عادة بالیدین کثیر، وإن عمل بواحدۃ کالتعمم وشد السراویل۔ الثالث: الحرکات الثلاث المتواترة کثیر۔ الرابع: ما یکون مقصودا للفاعل، بأن یفرد لہ مجلسا علیٰ حدة۔ الخامس: التفویض إلی رأي المصلي فإن استکثرہ فکثیر‘‘[8] اھ۔
[دوسرا قول یہ ہے کہ وہ عمل جو عادتاً دونوں ہاتھوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ عملِ کثیر ہے، اگرچہ وہ یہ عمل ایک ہاتھ کے ساتھ کرے، جیسے پگڑی اور شلوار باندھنا۔ تیسرا قول یہ ہے کہ پے در پے تین حرکتیں کرنا عملِ کثیر ہے۔ چوتھا قول یہ ہے کہ عملِ کثیر وہ ہے جو فاعل کا مقصودی عمل ہو اور وہ اس کے لیے علاحدہ مجلس قائم کرے۔ پانچواں قول یہ ہے کہ اس معاملے کو نمازی کی رائے کے سپرد کیا جائے، چنانچہ وہ جس عمل کو کثیر جانے، وہ عملِ کثیر ہوگا]
ان اقوال میں سے کسی قول پر کوئی دلیل کافی نہیں ہے۔ یہ سب اقوال رائے پر مبنی ہیں، جس سے نصوصِ کتاب و سنت کی تقیید جائز نہیں ہے۔ گو اِن میں سے بعض کو بعض پر ترجیح بھی رائے ہی سے ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ اگر اس مجموعہ کا عملِ کثیر ہونا مان بھی لیا جائے تو بھی اس کا مفسدِ نماز ہونا مسلم نہیں ہے، کیونکہ عملِ کثیر مطلقاً مفسدِ نماز نہیں ہے، بلکہ وہی عملِ کثیر مفسدِ نماز ہے، جو نماز کی اصلاح کے لیے نہ ہو اور جو عملِ کثیر نماز کی اصلاح کے لیے ہو، وہ مفسدِ نماز نہیں ہے، مثلاً کسی کو نماز میں حدث ہوجائے اور وہ وضو کرنے کے لیے جائے اور پھر وضو کر کے پلٹے تو یہ مجموعہ عمل مفسدِ نماز نہیں ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ نماز کے سدھارنے کے لیے ہے۔ در مختار (ص: ۶۴۰) میں ہے: ’’ویفسدھا کل عمل کثیر لیس من أعمالھا ولا لإصلاحھا‘‘ [ہر وہ عملِ کثیر، جو نماز کے اعمال سے ہو نہ اس کی اصلاح کی غرض سے، نماز کو فاسد کر دے گا]
دوسری دلیل [مانعین کی] یہ ہے کہ قرآن دیکھ کر پڑھنا دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے اور یہ مفسدِ نماز ہے۔ ہدایہ (۱/ ۵۶) میں ہے: ’’ولأنہ تلقن في المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ‘‘ اھ۔ [اور اس لیے (بھی یہ عملِ کثیر ہے) کہ اس نے مصحف سے (قرآن) سیکھا ہے، لہٰذا وہ اس شخص کے مشابہ ہو گیا، جس نے کسی دوسرے سے (قرآن) سیکھا]
اس دلیل کا جواب بھی کئی طرح سے ہے: اول یہ کہ نماز میں قرآن دوسرے سے سیکھ کر پڑھنے کے مفسدِ نماز ہونے پر کیا دلیل ہے؟ اگر ایسا ہو تو امام کا اپنے مقتدی سے لقمہ لینا بھی مفسدِ نماز ہوگا، کیونکہ یہ بھی دوسرے سے قرآن سیکھ کر پڑھنا ہے، حالانکہ حسبِ قول صحیح امام کا مقتدی سے لقمہ لینا مفسدِ نماز نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن دیکھ کر سچ مچ دوسرے سے سیکھ کر پڑھنا نہیں ہے، بلکہ من بعض الوجوہ اس کے مشابہ ہے، جیسا کہ کافِ تشبیہ دلیل میں موجود ہے، لیکن یہ کلیہ نہیں ہے کہ جب ایک چیز پر الگ حکم لگا ہو تو اس کے مشابہ پر بھی ضرور وہی حکم لگایا جائے، یہ جب ہے کہ دونوں چیزیں علتِ حکم میں متشارک ہوں اور یہ امر ما نحن فیہ میں ممنوع ہے۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه
ھو الموفق: حافظ ابن حزم ’’محلی‘‘ (۴/ ۴۶) میں فرماتے ہیں:
’’ولا تجوز القراء،ة في مصحف، ولا في غیرہ لمصل، إماما کان أو غیرہ، فإن تعمد ذلک بطلت صلاتہ، وکذلک عد الآي لأن تأمل الکتاب عمل لم یأت نص بإباحتہ في الصلاۃ، وقد روینا ھذا عن جماعۃ من السلف، منھم سعید بن المسیب، و الحسن البصري، والشعبي، وأبو عبد الرحمن السلمي، وقد قال بإبطال صلاۃ من أم بالناس في المصحف أبوحنیفة والشافعي، وقد أباح ذلک قوم منھم، والمرجوع عند التنازع إلیہ ھو القرآن والسنة، وقد قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : (( إن في الصلاۃ لشغلا )) فصح أنھا شاغلة عن کل عمل لم یأت فیہ نص بإباحتہ‘‘ انتھي
[نمازی کے لیے مصحف وغیرہ سے دیکھ کر پڑھنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ امام ہو یا غیر امام، پھر اگر وہ عمداً ایسا کرے گا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ آیات کو شمار کرنے کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ کتاب پر تامل کرنا ایک ایسا عمل ہے، جس کے نماز میں مباح ہونے کی کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے۔ یہ موقف سلف کی ایک جماعت سے مروی ہم تک پہنچا ہے، جن میں سعید بن مسیب، حسن بصری، شعبی اور ابو عبد الرحمن السلمی شامل ہیں۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے اس شخص کی نماز باطل ہونے کا فتویٰ دیا ہے، جو مصحف سے دیکھ کر لوگوں کی امامت کرائے۔ جب کہ سلف کی ایک جماعت نے اسے جائز و مباح بھی قرار دیا ہے۔ بہر حال تنازع کی صورت میں کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ چنانچہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقیناً نماز میں ایک طرح کی مشغولیت ہوتی ہے۔‘‘ پس صحیح یہ ہے کہ نماز ہر اس عمل سے مشغول کرنے والی ہے، جس کے مباح ہونے کی کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو]
[1] اصول الشاشي (ص: ۳۳)
[2] أصولي الشاشي (ص: ۳۳)
[3] فتح الباري (۲/ ۱۸۵) نیز دیکھیں: تغلیق التعلیق (۲/ ۲۹۱)
[4] الھدایة (۱/ ۶۲)
[5] یہ حدیث موضوع ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلة الضعیفة، رقم الحدیث (۱۵۸۶)
[6] العنایة (۲/ ۱۴۵)
[7] الدر المختار (۱/ ۶۲۴)
[8] رد المحتار (۱/ ۶۲۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب