سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(75) نماز میں أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ کا جواب دینا

  • 22840
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 715

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 1۔ ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ ﴿٨سورة التين  کے سننے والے کو جواب دینے کا ثبوت کسی حدیث صحیح سے ہے یا نہیں؟

2 - ’’بلی وأنا علی ذلک من الشاھدین‘‘ کلام ہے یا نہیں؟ اگر کلام ہے تو اس سے نماز میں کچھ فتور ہوتا ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ کے سننے والے کو جواب دینے کا ثبوت کسی حدیث سے باوجود تلاش کثیر مجھے اب تک دستیاب نہیں ہوا۔ ہاں پڑھنے والے کو جواب دینے کا ثبوت البتہ حدیث سے ہے، جیسا کہ جواب سوال میں مندرج ہے۔

2۔  ’’بلیٰ وأنا علی ذلک من الشاھدین‘‘ کے کلام ہونے میں تو کچھ شبہہ نہیں ہے، لیکن نماز میں جو کلام ممنوع ہے، وہ وہی کلام ہے جو کسی آدمی یا دیگر کسی مخلوق سے کیا جائے، نہ کہ ہر کلام اور جواب مذکور اس قبیل سے نہیں ہے، تو اس کی ناجوازی اس وجہ سے نہیں ہو سکتی ہے کہ یہ کلام ہے اور کلام نماز میں ممنوع ہے، لیکن نماز ایک ایسی چیز ہے، جس میں آدمی خود مختار نہیں ہے کہ جو چاہے، اس میں گھٹاوے یا بڑھاوے، بلکہ اس میں پابندی قانون شرع شریف کی لازم ہے۔

صحیح بخاری ابوب الاذان میں مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ  سے مرفوعاً مروی ہے:

(( صلوا کما رأیتموني أصلي )) [1] ’’یعنی نماز اس طرح پر پڑھو، جس طرح پر مجھ کو پڑھتے دیکھتے ہو۔‘‘

تو نماز حسبِ تعلیم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پڑھنی چاہیے نہ کہ جس طرح اپنا جی چاہے، تو جس سننے والے شخص کو ﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ﴾ ﴿٨سورة التين کے جواب دینے کا ثبوت کسی شرعی دلیل سے نہ پہنچا ہو تو اس کے تا پہنچنے ثبوت کے جواب دینا ملتوی کرنا چاہیے۔


[1]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۵۶۶۲)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:177

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ