سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) رفیع الیدین اور آمین بالجہر

  • 22837
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 2556

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رفع یدین کرنا وقت جانے رکوع کے اور وقت اٹھانے سر کے رکوع سے درست ہے یا نہیں؟

2۔آمین بآواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

1۔ماہر ین شریعت غراپرمخفی و محتجب نہ ہے کہ رفع یدین کا کرنا وقت جانے رکوع اور وقت اٹھانے سر کے رکوع سے صحیح سے صحیح حدیثوں سے ثابت ہے اور اسی کے قائل ہیں جمہور محدثین۔ بخاری شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔

ابْنَ عُمَرَ , قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلَاةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ , وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَإِذَا قَالَ:  سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَلَا يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلَا حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنْ السُّجُودِ.[1]

(عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نماز شروع کرتے تو"اللہ اکبر"کہتے اور "اللہ اکبر"کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے حتیٰ کہ ان کو اپنے کندھوں کے برابر لے جاتے ۔جب رکوع کرنے کے لیے "اللہ اکبر"کہتے تو پھر ایسے ہی کرتے اور جب "سمع اللہ لمن حمدہ"کہتے تو پھر ایسے ہی کرتے اور کہتے "ربنا ولک الحمد"اور سجدہ کرتے وقت اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت یہ (رفع الدین)) نہیں کرتے تھے)

اور روایت کیا اس حدیث کو مسلم و ترمذی و نسائی وابن ماجہ ابو داؤد دارمی و مالک نے اور ترمذی بعد نقل حدیث کے کہتا ہے۔

"حديث ان عمر رضي الله عنه حديث حسن صحيح وبهذا يقول بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلي الله عليه وسلم منهم ابن عمر وجابر بن عبد الله وابو هريرة وانس وابن عباس وعبد الله بن الزبير وغيرهم ومن التابعين الحسن البصري وعطاء وطاوس ومجاهد ونافع وسالم بن عبد الله وسعيد بن جبير وغيرهم وبه يقول عبد الله بن المبارك والشافعي واحمد واسحاق انتهي كلامه"

 (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث حسن صحیح ہے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔

جن میں سے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وغیرہ اور تابعین میں سے حسن بصری  رحمۃ اللہ علیہ عطاء  رحمۃ اللہ علیہ  طاؤس رحمۃ اللہ علیہ  مجاہد رحمۃ اللہ علیہ  نافع رحمۃ اللہ علیہ  سالم بن عبد اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  اور سعید بن  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ ہیں عبد اللہ بن مبارک شافعی رحمۃ اللہ علیہ  احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  بھی یہی موقف رکھتے ہیں)

امام نووی : شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں۔

"اجمعت الامة على استحباب رفع اليدين عند تكبيرة الاحرام واختلفوا فيما سواها فقال الشافعي واحمد وجمهور العلماء من الصحابة رضي الله عنهم فمن بعدهم يستحب رفعهما ايضا عند الركوع وعند الرفع منه وهو رواية عن مالك وللشافعي قول أنه يستحب رفعهما في موضع آخر رابع وهو اذا قام من التشهد الاول وهذا القول هو الصواب فقد صح فيه حديث بن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه و سلم انه كان يفعله رواه البخاري وصح ايضا من حديث ابي حميد الساعدي رواه ابو داود والترمذي باسانيد صحيحة"[2]

(تکبیرتحریمہ کے وقت رفع الیدین کے مستحب ہونے پر امت کا اجماع ہے اوراس کے علاوہ میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  احمد رحمۃ اللہ علیہ اور صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین اور ان کے بعد والوں سے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ رکوع کرتے وقت رکوع سے سر اٹھاتے وقت ان کا مستحب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  سے بھی اسی طرح کی ایک روایت مروی ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک قول یہ ہے کہ ایک چوتھی جگہ پر بھی رفع الید ین مستحب ہے اور وہ پہلے تشہد سے کھڑے ہونے کے وقت ہے اور یہی قول درست بھی ہے اس بارے میں ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے صحیح روایت مروی ہے کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا ہی کیا کرتے تھے اسے بخاری نے روایت کیا ہے نیز یہ ابو حمید ساعدی کی حدیث  سے بھی صحیح ثابت ہے امام ابو داود اور ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے)

اور اعتراض کرنا احناف کا اس حدیث پر بایں طور کہ راوی اس حدیث کے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ہیں اور مجاہد نے کہا ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پیچھے نماز پڑھا تو رفع یدین نہیں کیا مگر اول مرتبہ جیسا کہ روایت کیا طحاوی نے پس موافق اصول کے حدیث مرجوح ہوئی اور قابل وعمل کے نہ رہی اس واسطے کہ اصول فقہ میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جو راوی کسی حدیث روایت کرے اور فعل اس کا اس کے خلاف پا یا جائے تو وہ روایت مرجوح ہوتی ہے یہ محض باطل ہے اور جواب اس کا کئی طرح سے دیا جاتا ہے ایک تویہ کہ صاحب مسلم الثبوت نے اس قاعدے کو باطل کردیا ہے دوسرے یہ کہ صرف نہ کرنے سے راوی کی حدیث منسوخ نہیں ہوتی جب تک راوی خودنہ بیان کرے کہ یہ حدیث  منسوخ ہے اور علامہ معین الدین "دارسات اللبیب " میں فرماتے ہیں۔

دلالة ترك الراوي مرويته علي نسخة ممنوع من وجوه الاول لانسلم جواز النسخ الا بدليل مثله من الشارع عليه السلام لما تقدم وترك الراوي من غير اظهار دليل عن النبي صلي الله عليه وسلم لا يكفي مونته انتهي كلامة "

(راوی کے اپنی مروی پر عمل کے ترک کرنے کی اس کے منسوخ ہونے پر دلالت چند وجودہ سے ممنوع ہے۔ پہلی یہ کہ ہم شارح علیہ السلام کی طرف سے اس جیسی دلیل کے بغیر نسخ کے جواز کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔راوی کا نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے کسی دلیل کے اظہار کے بغیر عمل  کو ترک کرنا اس کے لیے کافی نہیں ہے)

تیسرے یہ کہ خود حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا رفع یدین کرنا ثابت ہے چنانچہ بخاری شریف میں ہے۔

عَنْ نَافِعٍ : " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ "، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .[3]

(نافع  رحمۃ اللہ علیہ  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کرتے ہیں کہ جب وہ نماز کا آغاز کرتے تو "اللہ اکبر"کہتے اور اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے پھر جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب "سمع اللہ لمن حمدہ" کہتے تو پھر اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے چنانچہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس روایت کو نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تک مرفوع بیان کیا )

بلکہ روایت کیا امام بخاری نے "جزء رفع الدین " میں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس شخص کو دیکھتے کہ رفع یدین نہیں کرتا اس کو کنکری مارتے تھے۔

عن نافع عن ابن عمر رضي الله عنه كان اذا راي رجلا لا يرفع يديه اذا ركع واذا رفع رماه بالحصي انتهي كلامه[4]

(نافع  رحمۃ اللہ علیہ  ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب وہ کسی آدمی کو دیکھتے کہ وہ رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہیں کرتا تو اس کو کنکری مارتے تھے)

چوتھے یہ کہ ہوسکتا ہے کہ مجاہد بھول گئے ہوں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  "جزء رفع الیدین"میں فر ماتے ہیں۔

قال البخاري ويروي عن أبي بكر بن عياش عن حصين عن مجاهد « أنه لم ير بن عمر رضى الله تعالى عنهما رفع يديه إلا في أول التكبير » وروى عنه أهل العلم أنه لم يحفظ من بن عمر إلا أن يكون سها كما يسهو الرجل في الصلاة في الشيء بعد الشيء كما أن أصحاب محمد  صلي الله عليه وسلم ربما يسهون في الصلاة فيسلمون في الركعتين وفي الثلاث ألا ترى أن بن عمر رضى الله تعالى عنهما كان يرمي من لا يرفع يديه بالحصى فكيف يترك بن عمر شيئا يأمر به غيره وقد رأى النبي  صلي الله عليه وسلم فعله [5]

(ابو بکر بن عیاش سے روایت کی جاتی ہے وہ حصین سے بیان کرتے ہیں وہ مجاہد سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو پہلی تکبیر کے سوا میں رفع الیدین کرتے نہیں دیکھا ۔اہل علم نے ان سےروایت کیا ہے کہ وہ (مجاہد) اہل علم سے اس کو یاد نہیں رکھ سکے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسے ہی بھول گئے جس طرح آدمی نماز میں ایک چیز کے بعد دوسری چیز بھول جاتا ہے جس طرح محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب بعض اوقات نماز میں بھول جاتے تھے اور(چار رکعتی نماز میں) دو  رکعت کے بعد اور تین رکعت کے بعد سلام پھیردیتے تھے۔آپ دیکھتے نہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رفع یدین نہ کرنے والے کو کنکریاں مارا کرتے تھے لہٰذا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وہ کام خود کیسے چھوڑسکتے ہیں جس کا دوسروں کو حکم دیتے ہیں اور انھوں نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو وہ فعل کرتے ہوئے دیکھا تھا؟)

پانچویں یہ کہ نہ کرنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا ایک بار مخالف مدعا نہیں بلکہ مفید ہے اس واسطے کہ رفع یدین کا کرنا سنت ہے اور سنت کے یہی معنی ہیں کہ کبھی کیا جائے۔اور کبھی نہ کیا جائے۔

چھٹا یہ کہ ہو سکتا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ترک کیا ہو بسبب عدم انضباط مواضع اس کی کے۔ علامہ معین الدین "دراسات اللبیب"میں فر ماتے ہیں۔

قد يترك الراوي مرويته لتردده في كيفيته العمل به حتي لايقع علي خلاف السنة فيجوز ترك ابن عمر الرفعات لعدم انضباط مواضعها"

(کبھی راوی اپنی مروی کو عمل کی کیفیت میں تردو کی بنا پر ترک کر دیتا ہے تاکہ وہ خلاف سنت واقع نہ ہو۔لہٰذا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا رفع یدین کو ترک کرنا عدم انضباط مواضع کے سبب جائز ہے)

اور روایت کیا نسائی  نے مالک بن الحویرث سے۔

"عن ما لك بن الحويرث انه راي النبي صلي الله عليه وسلم يرفع يديه واذا ركع واذا رفع راسه من الركوع حتي يحاذي بهما  فروع اذنيه[6]"

(مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا یہاں تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو اپنے کانوں کی لو کے برابر تک لے جاتے )

اور مسلم نے ابو قلابہ سے روایت کیا ہے۔

انه راوي مالك بن الحويرث اذا صلي كبر ثم رفع يديه واذا اراد ان يركع  رفع يديه واذ رفع راسه من الركوع رفع يديه وحدث ان رسول الله صلي الله عليه وسلم كان يفعل هكذا[7]

(انھوں نے مالک بن حویرث کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے وقت "اللہ اکبر"کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ۔پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب رکوع سے اپنا سراٹھاتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ۔انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایسا کیا کرتے تھے)

اور روایت کیا حدیث رفع یدین کو چودہ صحابہ نے جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتاب "الام" میں فرماتے ہیں۔

يروي ذلك عنه اربعة عشر رجلا من الصحابة ويروي عن اصحابه من غير وجه انتهي كلامه[8]

(چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے کئی واسطوں سے یہ بیان کیا جا تا ہے)

اور امام بخاری بھی "جزء رفع الیدین " میں فر ماتے ہیں کہ روایت کیا اس حدیث کو سترہ صحابہ نے۔

"قال البخاري وكذلك يروي عن سبعة عشر نفسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أنهم كانوا يرفعون أيديهم عند الركوع وعند الرفع منه أبو قتادة الأنصاري وأبو أسيد الساعدي البدري ومحمد بن مسلمة البدري وسهل بن سعد الساعدي وعبد الله بن عمر بن الخطاب وعبد الله بن عباس بن عبد المطلب الهاشمي وأنس بن مالك خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو هريرة الدوسي وعبد الله بن عمر بن العاص وعبد الله بن الزبير بن العوام القرشي ووائل بن حجر الحضرمي ومالك بن الحويرث وأبو موسى الأشعري وأبو حميد الساعدي الأنصاري رضى الله تعالى عنهم قال الحسن وحميد بن هلال كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يرفعون أيديهم لم يستثن أحد من أصحاب النبي دون أحد ولم يثبت عند أهل العلم عن أحد من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أنه لم يرفع يديه ويروى أيضا عن عدة من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ما وصفنا وكذلك روايته عن عدة من علماء أهل مكة والحجاز وأهل العراق والشام والبصرة واليمن وعدة من أهل خراسان منهم سعيد بن جبير وعطاء بن أبي رباح ومجاهد والقاسم بن محمد وسالم بن عبد الله بن عمر بن الخطاب وعمر بن عبد العزيز والنعمان بن أبي عياش والحسن وابن سيرين وطاوس ومكحول وعبد الله بن دينار ونافع مولى عبد الله بن عمر والحسن بن مسلم وقيس بن سعد وعدة كثيرة وكذلك يروي عن أم الدرداء"[9]

(اس طرح نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے سترہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے روایت کیا جا تا ہے کہ وہ رکوع )جانے اور اٹھنے) کے وقت رفع یدین کرتے تھے جن میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ   ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عبد اللہ بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوام قرشی وائل بن حجر حضری مالک بن حویرث ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابوحمید ساعدی عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ  شامل ہیں)

اور دعوی کیا ہے مجد الدین فیروز آبادی اور عراقی نے کہ حدیث رفع الیدین کی متواتر المغنی ہے روایت کیا اس کو پچاس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اور اسی طرح جلال الدین سیوطی نے دعویٰ تواتر کا کیا ہے اپنی کتاب " الازهار التماثرة في الاخبار المتواترة" میں۔"دراسات اللبیب "میں علامہ معین الدین فرماتے ہیں۔

"وردت في الربع اربعمائبة خبر بين مرفوع واثر علي ما قاله مجد الدين الفيروز أبادي في السفر فالحديث متواتر معني رواه خمسون من الصحابة فيهم العشرة المبشرة رضي الله عنهم علي ما قاله العراقي في شرح التقريب وعده السيوطي من جملة الاحاديث المتواترة في كتابه المسمي الازهام المتاثرة في لاخبار المتواترة ونسبه الي رواية ثلاثة وعشرين من الصحابة فقال حديث رفع اليدين في الاحرام والركوع والاعتدال اخرجه الشيخان عن ابن عمر ومالك بن الحويرث  رضي الله عنه ومسلم يعني في افراده عن وائل بن حجر والا ربع يعني اصحاب السنن الاربعة عن علي وابوداود يعني في افراده عن سهل بن سعد وابن الزبير وابن عباس ومحمد بن مسلمة وابي اسيد وابي حميد وابي قتاده وابي هريرة وابن ماجه يعني في افراده عن انس وعن جابر ابن عبد الله وعمر الليثي واحمد عن الحكم بن عمير والاعرابي والبيهقي عن ابي بكر الصديق والبراء والدارقطني عن عمر بن الخطاب وابي موسي الاشعري والطبراني عن علقمة بن عامر ومعاذ بن جبل انتهي كلامة"

 (رفع یدین کے بارے میں چار سو مرفوع احادیث و آثار مروی ہیں جیسا کہ مجدالدین فیروز آبادی نے "سفر السعادۃ"میں کہا ہے۔ پس یہ حدیث متواتر المغنی ہے جس کو پچاس صحابہ کرام  رضوان اللہ عنھم اجمعین نے روایت کیا ہے جن میں عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل ہیں جیسا کہ عراقی نے شرح التقریب میں کہا ہے۔سیوطی رحمۃ اللہ علیہ  نے اس کو اپنی کتاب:

" الازهار التماثرة في الاخبار المتواترة"

میں متواتر احادیث کے ضمن میں شمار کیا ہے اور اسے تیئس صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی روایت کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تکبیر تحریمہ رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کی حدیث کو امام بخاری ومسلم نے ابن عمر اور مالک بن حویرث  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے وائل بن حجر سے بیان کیا ہے۔اصحاب سنن اربعہ نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اور ابو داؤد نے سہل بن سعد ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو حمید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو قتادہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے انس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر لیثی سے روایت کی ہے احمد نے حکم بن عمیرسے۔ اعرابی بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور براءسے بیان کیا ہے دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کیا ہے۔طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  نے علقمہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا ہے)

وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی رفع الیدین پر ہوئی ہے جیسا کہ علامہ معین الدین "دارسات اللبیب " میں فرماتے ہیں ۔

"ثم استمر به حتي فارق الدنيا وهو زيادة البيهقي علي الحديث" (المتفق عليه)عن الزهري عن سالم عن ابن  عمر:فما زالت تلك صلاته حتي لقي الله تعالي قال ابن المديني في حديث الزهري عن سالم عن ابيه هذا الحديث عندي حجة علي الخلق وكل من سمعه فعليه ان يعمل به لانه ليس في اسناده شئي حكاه الحافظ في تخريج احاديث الرافعي ولكونه لم ينسخ بعد حجيته وتواتره وروايته عن حجر جم غفير من الصحابة كا ن معمولا في الصحابة بعد النبي صلي الله عليه وسلم انتهي كلامه"

 (پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  وفات تک اس (رفع الیدین ) پر عمل کرتے رہے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے متفق علیہ حدیث پر زہری سالم اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی وہ زیادتی بھی بیان کی ہے جس میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو جاملے ابن مدینی نے زہری سالم اور وہ اپنے باپ سے مروی حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث میرے نزدیک لوگوں پر حجت ہے لہٰذا جو بھی اس کو سنے اس پر یہ واجب ہے کہ وہ اس پر عمل کرے کیوں کہ اس کی اسناد میں کوئی ضعف نہیں ہے اس کو حافظ نے رافعی کی احادیث کی تخریج میں حکایت کیا ہے اس لیے کہ یہ حدیث اپنی حجت تواتر اور صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ایک جم غفیر سے اس روایت کے بعد منسوخ نہیں ہوتی اور یہ حدیث ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ہاں نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد معمول بہ تھی)

ناظرین پر پوشیدہ نہ رہے کہ یہاں سے بھی معلوم ہوا ہے کہ رفع یدین کا کرنا سنت موکدہ ہے کیوں کہ تعریف سنت موکدہ کی یعنی

"ما واظب عليه النبي صلي الله عليه وسلم مع الترك احيانا"

 (جس پر نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیشگی کی ہواور بعض اوقات اسے ترک بھی کیا ہو) صادق آتی ہے کما لا یخفی ۔ بلکہ نہ کرنا رفع الیدین کا آنحضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ایک بار بھی صحیح روایتوں سے ثابت نہیں ہوتا ہے جیسا کہ امام بخاری جز ء رفع الیدین میں فرماتے ہیں۔

قال أبو عبدالله: ولم يثبت عند أهل النظر ممن أدركنا من أهل الحجاز وأهل العراق منهم عبدالله بن الزبير وعلي بن عبدالله بن جعفر ويحيى بن معين وأحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه هؤلاء أهل العلم من أهل زمانهم فلم يثبت عند أحد منهم علمنا في ترك رفع الأيدي عن النبي ‘ ولا عن أحد من أصحاب النبي ‘ أنه لم يرفع يديه.[10]

(اہل حجاز اور اہل عراق کے جن اہل نظر سے ہماری ملاقات ہوئی ہے ان سے یہ ثابت نہیں ہے جن میں عبد اللہ بن زبیرعلی بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ  بن جعفر یحییٰ بن معین  رحمۃ اللہ علیہ احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  اور اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ  شامل ہیں یہ لوگ اپنے دور کے لوگوں کے درمیان اہل علم تھے ان میں سے کسی ایک کے ہاں بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین ترک کیا ہو اور نہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب میں سے کسی صحابی سے یہ ثابت ہے کہ اس نے رفع یدین نہ کیاہو)

بلکہ روایت کیا امام بخاری نے جزءرفع الیدین میں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جس شخص کو دیکھتے کہ نماز میں رفع یدین نہیں کرتا ہے اس کو کنکری سے مارتے تھے اور یہ روایت نافع سے اوپر گزر چکی ہے اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  رفع یدین کو ایک امر موکد سمجھتے تھے جس کو ہم لوگ تعبیر ساتھ سنت موکدہ کے کرتے ہیں۔فثبت المطلوب بلا کلفۃ

باقی رہی حدیث ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی جو روایت کیا ہے ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ اور ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے علقمہ  رحمۃ اللہ علیہ سے۔

"قال:قال لنا ابن مسعود الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلي الله عليه وسلم فصلي ولم يرفع يديه الامرةواحدة مع تكبيرة الافتتاح"[11]

(علقمہ نے) کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا : کیا میں تمھیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز نہ پڑھ کر دکھاؤں ؟چنانچہ انھوں نے نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ تکبیر تحریمہ کے ساتھ صرف ایک ہی بار اٹھائے)

اور یہی دلیل احناف کرام کی ہے سو یہ حدیث صحیح نہیں ہے چنانچہ خود ابوداؤد  رحمۃ اللہ علیہ کہتا ہے۔

"هذاحديث مختصر من حديث طويل ليس هو بصحيح علي ذلك اللفظظ"

 (یہ حدیث ایک لمبی حدیث سے مختصر ہے اور ان الفاظ میں صحیح نہیں ہے)

اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  تخریج رافعی میں فرماتے ہیں۔

"وقال ابن المبارك لم يثبت عندي وضعفه احمد وشيخه يحيي بن أدم والبخاري وابوداود وابو حاتم والدارقطني والدارمي والحميدي الكبير والبيهقي"[12]

(ابن المبارک نے کہا ہے کہ میرے ہاں یہ ثابت نہیں ہے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور ان کے شیخ یحییٰ بن آدم بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  ابو حاتم  رحمۃ اللہ علیہ  دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ دارمی رحمۃ اللہ علیہ  حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کبیر اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قراردیا ہے)

نیز ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

"هذا احسن خبر روي لاهل الكوفة وهو في الحقيقة اضعف شئيا يعول عليه لان له علة تبطله هكذا في الدراسات"[13]

(یہ سب سے زیادہ بہتر حدیث ہے جو اہل کوفہ کے لیے روایت کی گئی ہے مگر فی الحقیقت یہ وہ کمزور ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں ایک ایسی علت پائی جاتی ہے جو اس کو باطل قرار دیتی ہے)

امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  نے محدثین کا اتفاق نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  "جزء رفع الیدین"میں فر ماتے ہیں۔

قال البخاري: ويروى عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال: قال بن مسعود رضى الله تعالى عنه فذكر الحديث باللفظ الذي عند أبي داوود و قال: وقال أحمد بن حنبل عن يحيى بن آدم قال نظرت في كتاب عبد الله بن إدريس عن عاصم بن كليب ليس فيه ثم لم يعد فهذا أصح لأن الكتاب أحفظ عند أهل العلم لأن الرجل يحدث بشيء ثم يرجع إلى الكتاب فيكون كما في الكتاب.[14]

(سفیان سے روایت کیا جا تا ہے وہ عاصم بن کلیب سے روایت کرتا ہے وہ عبد الرحمٰن بن اسود سے وہ علقمہ سے روایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا میں تمھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز نہ پڑھا کر دکھاؤں ؟چنانچہ انھوں نے نماز پڑھی اور اپنے ہاتھ (تکبیر تحریمہ کے ساتھ)صرف ایک دفعہ ہی اٹھائے ۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے یحییٰ بن آدم  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کیا ہے انھوں نے کہا ہے میں نے عبد اللہ بن ادریس رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب میں دیکھا وہ عاصم بن کلیب سے روایت کرتے ہیں ۔جس میں "ثم لم بعد"کے الفاظ نہیں تھے۔پس یہ روایت زیادہ صحیح ہے کیوں کہ اہل علم کے نزدیک کتاب زیادہ محفوظ ہوتی ہے اس لیے کہ آدمی بعض اوقات کوئی چیز بیان کرتا ہے پھر وہ کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو وہ چیز کتاب میں مو جو د ہوتی ہے)

اور دلیل پکڑنا احناف کرام کا ساتھ حدیث براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے جو روایت کیا ہے ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے اوروہ حدیث یہ ہے ۔

عَنْ الْبَرَاءِ بن عازب أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ أُذُنَيْهِ ثُمَّ لَا يَعُودُ[15]

 (براء بن عازب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی ہے کہ بلا شبہہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب نماز شروع کرتے تو اپنے کانوں کے قریب تک ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ایسا نہ کرتے)

جائز نہیں کئی وجہ سے ایک تو یہ کہ حدیث ضعیف ہے ضعیف کہا اس کو ابن مدینی نے اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ  نے اور مردود کہا اس کو دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ  نے اور دوسرے یہ کہ الفاظ "لایعود"کا سوائے راوی شریک کے کسی نے نہیں ذکر کیا اور شریک کو ترمذی نے کئی جگہ اپنی جامع میں ضعیف کہا ہے ایک مقام پر کہتا ہےکہ شریک کثیر الغلط ہے عینی حنفی رحمۃ اللہ علیہ  شرح صحیح بخاری میں فر ماتا ہے۔

"وقال الخطابي: لم يقل أحد في هذا: ثم لا يعود، غير شريك. وقال أبو عمر: تفرد به يزيد، ورواه عنه الحفاظ فلم يذكر واحد منهم قوله: «ثم لا يعود». وقال البزار: لا يصح حديث يزي  في رفع اليدين ثم لا يعود وقال  عباس الدوري عن يحيي بن معين ليس هو بصحيح الاسناد انتهي ما قاله العيني[16]"

(امام خطابی  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ شریک کے علاوہ کسی نے "ثم یعود" کے الفاظ ذکر نہیں کیےہیں۔ابو عمر نے کہا ہے کہ یزید اس کے ذکرمیں متفرد ہے جن حفاظ سے روایت کی ہے ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ قول "ثم لا یعود" ذکر نہیں کیا۔ امام بزار رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے رفع الیدین کے بارے میں "ثم لایعود"والی یزیدکی روایت درست نہیں ہے۔ عباس نے کہا ہے کہ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ یہ روایت صحیح الاسناد نہیں ہے)

امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "الضعفاء"میں فرماتے ہیں۔

"يزيد بن ابي زياد كان صدوقا الا انه لما كبر تغير فكان يلقن فيتلقن فسماع من سمع منه قبل دخوله في اول عمره سماع صحيح وسماع من سمع منه قبل دخوله الكوفة في اول عمره سماع صحيح وسماع من سمع منه أخر قدومة الكوفة  ليس بصحيح انتهي ما في كتاب الضعفاء لابن حبان[17]"

(یزید بن ابی زیاد صدوق راوی تھا مگر جب وہ بوڑھا ہوگیا تو اس کا حافظ متغیر ہو گیا پس اس کو تلقین کی جاتی تو وہ تلقین کو قبول کر لیتا چنانچہ جس نے اس کی اول عمر میں اس کے کوفے میں جانے سے پہلے اس سے سماع  کیا تو اس کا سماع درست شمار ہو گا اور جس نے اس کو کوفے میں داخل ہونے کے بعد اس سے سماع کیا تو اس کا سماع صحیح نہیں ہے)

تیسرے یہ کہ ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے بعد نقل اس حدیث کے یہ فر مایا ہے کہ اس حدیث کو اور لوگوں نے بھی روایت کیا ہے مگر "لا یعود"کا نہیں ذکر کیا۔

"قال ابو داود روي هذا الحديث هشيم وخالد وابن ادريس عن يزيد ولم يذكروا ثم لا يعود[18]"

(امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ہشیم اور خالد اور ابن ادریس نے اس حدیث کو یزید سے روایت کیا ہے ۔

لیکن انھوں نے "ثم یعود"کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں۔

پس یہ حدیث بالکل پایہ اعتبار سے ساقط ہے دووجہ سے ایک تویہ کہ دو راوی اس حدیث میں ضعیف ہیں۔

دوسرا یزید بن ابی زیاد جیسا کہ اوپر کی عبارت سے معلوم ہوا۔ جب کوفہ میں تشریف لے گئے تو لفظ "لایعود "کا بڑھا دیا جیسا کہ آیندہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے۔فلنتظر"ابو داؤد نے حدیث براء کو دوسری سند سے یعنی  برروایت محمد بن ادبی لیلیٰ کے بھی لایا ہے اور وہ حدیث مع اسناد کے نقل کی جاتی ہے۔

حدثنا حسين بن عبد  الرحمان انا وكيع عن ابن ابي ليلي عن اخيه عيسي عن الحكم  عن عبدالرحمان بن ابي ليلي عن البراء بن عاذب قال رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم رفع يديه  حين افتتح الصلاة ثم لم يرفعهما حتي انصرف[19]

(ہم کو حسین بن عبد الرحمٰن نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم وکیع نے ابن ابی لیلیٰ سے انھوں نے اپنے بھائی عیسیٰ سے انھوں نے حکم سے انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے انھوں نے براء بن عازب سے روایت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھوں کو اٹھا یا پھر نماز سے فارغ ہونے تک ان کو دوبارہ نہیں اٹھایا )

یہ حدیث بھی لائق احتجاج نہیں کیوں کہ منقطع ہے اس لیے کہ درمیان میں یزید بن ابی زیاد کا واسطہ چھوٹا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے۔

وانما روي ابن ابي ليلي من حفظه فاما من حديث عن ابن ابي ليلي من كتابه فانما حدث عن ابن ابي ليلي عن يزيد فرجع الحديث الي تلقين يزيد والمحفوظ ما روي الثوري وشعبة وابن  عينيه قديما انتهي ما في جزءرفع اليدين  [20]

(ابن ابی لیلیٰ نے اپنے حفظ سے اس روایت کو بیان کیا ہے لیکن جس نے ابن ابی لیلیٰ سے اس کی کتاب سے بیان کیا تو اس نے اس کو ابن ابی لیلیٰ سے یزید سے بیان کیا ہے پس یہ حدیث یزید کی تلقین کی طرف لوٹتی ہے جب کہ محفوظ روایت وہ ہے جو ثوری رحمۃ اللہ علیہ  شعبہ رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ  نے پہلے بیان کی ہے)

اور وہ روایت محفوظ ہے۔

حدثنا .... الحميدي حدثنا سفيان عن يزيد بن أبي زياد ههنا عن بن أبي ليلى عن البراء رضى تعالي عنه كا ن يرفع يديه اذا كبر قال سفيان لما كبر الشيخ لقنوه ثم لم يعد  فقال ثم لم يعد قال البخاري وكذلك روي الحفاظ من سمع من يزيد بم ابي زياد قديما منهم الثوري وشعبة وزهير ليس فيه ثم لم  بعد انتهي ما في جزء رفع اليدين للبخاري[21]

(ہمیں حمیدی نے ہمیں سفیان نے یزید بن ابی زیاد سے بیان کیا اور یہاں ابن ابی لیلیٰ سے انھوں نے براء سے کہ بلاشبہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرتے تھے سفیان نے کہا کہ جب شیخ (یزید بن ابی زیاد) بوڑھے ہوگئے تو انھوں نے ان کو "ثم یعود"کے الفاظ کی تلقین کی تو انھوں نے "ثم لم یعود"کے الفاظ بیان کیے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے یزید بن ابی زیاد سے پہلے پہل سننے والے حفاظ نے یونہی بیان کیا ہے جن میں ثوری  رحمۃ اللہ علیہ شعبہ رحمۃ اللہ علیہ  اور زہیرشامل ہیں چنانچہ ان کی بیان کردہ روایت میں"ثم لم یعد"کے الفاظ نہیں ہیں)

اور تخریج ہدایہ میں ہے"

وقال عبد الله بن احمد كان  ابي ينكر  حديث الحكم وعيسي ويقول انما هو حديث يزيد[22]

(عبد اللہ بن احمد  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے میرے والدحکم رحمۃ اللہ علیہ اور عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ  کی روایت کردہ حدیث کا انکار کرتے تھے اور فرماتے وہ تو یزید کی بیان کردہ حدیث ہے)پس ان عبارات سے صاف ظاہر و باہر ہوا کہ یہ حدیث منقطع  ہے اس لیے کہ یزید بن ابی زیاد کا واسطہ چھوٹ گیا ہے اور بہ سبب اسی انقطاع کے ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا: ("ھذا حدیث لیس بصحیح "(یہ حدیث صحیح نہیں ہے)مختصر العلل میں ہے۔

قال عبد الله سالت ابي(احمد بن حنبل) عن حديث البراء في الرفع يعني الذي يرويه يزيد بن ابي زياد فقال لم يكن يزيد بن ابي زياد بحافظ وقد رواه وكيع سمعه من ابن ابي ليلي عن الحكم وعيسي عن عبد الرحمان بن ابي ليلي وكان ابي يقول انما هو حديث بن ابي زياد وابن ابي ليلي سئي الحفظ وحدثني قال نظرت في كتاب ابن ابي ليلي اذا هو يرويه عن يديد بن ابي زيادة وقال ابي:كان سفيان بن عينية يقول:سمعناه عن يزيد هكذا ثم قدمت الكوفة فاذا هو يقول ثم لا يعود[23]

(عبد اللہ نے کہا :میں نے اپنے باپ (احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ )سے رفع یدین  کے بارے میں براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے متعلق دریافت کیا۔ یعنی وہ جس کو یزید بن ابی زیاد بیان کرتے ہیں تو انھوں نے کہا:یزید بن ابی زیاد حافظ نہیں تھے اس کو وکیع نے روایت کیا ہے انھوں نے اس کو ابن ابی لیلیٰ سے سناہے انھوں نے حکم اور عیسیٰ سے اور انھوں نے عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے۔ میرا والد کہا کرتا تھا یہ ابن ابی زیاد سے مروی حدیث ہے۔رہا ابن ابی لیلیٰ تو وہ سیی الحفظ ہے انھوں نے مجھے بیان کرتے ہوئے کہا: میں نے ابن ابی لیلیٰ کی کتاب دیکھی تو اس میں تھا  کہ وہ اس کو یزید بن ابی زیاد سے بیان کرتے ہیں نیز میرے والد نے کہا: سفیان بن عیینہ کہا کرتے تھے ہم نے اس کو یزید سے اسی طرح ("ثم لا یعود"کی زیادتی کے بغیر ) سنا ۔ پھر جب میں کوفے میں آیا تو وہ "ثم لایعود"کے الفاظ بیان کر رہے تھے)اور دلیل پکڑ نا احناف کا قول عبد اللہ الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے جو نہایہ میں مسطور ہے اور وہ یہ ہے۔

ان عبد الله بن الزبير راي رجلا يصلي في المسجد الحرام ويرفع يديه عند الركوع وعند رفع الراس منه  فقال:لاتفعل انه امرفعله  رسول الله صلي الله عليه وسلم في اول الاسلام ثم تركه ونسخ[24]

(عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک شخص کو مسجد حرام میں یوں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ وہ رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع یدین کر رہا تھا تو انھوں (ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے کہا: ایسا مت کرو۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے شروع اسلام میں یہ کام کیا پھر اسے ترک کردیا اور یہ منسوخ ہو گیا)

جائز نہیں دو وجہ سے ایک تویہ کہ یہ روایت نزدیک محدثین کے ثابت نہیں اور نہ کسی حدیث کی کتاب میں بسند صحیح منقول ہے دوسرے یہ کہ فعل عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس کے خلاف پایا گیا ہے چنانچہ امام بخاری نے "جزء رفع الیدین "میں عطاسے روایت کیا ہے۔

"عن عطاء قال رايت جابر بن عبد الله وابا سعيد الخدري وابن عباس وابن زبير يرفعون ايديهم حين يفتتحون الصلاة واذا ركعوا واذا رفعوا رووسهم من الركوع انتهي"[25]

(عطاء رحمۃ اللہ علیہ  نے کہا ہے کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے)

امام ابو داؤد نے بطریق میمون المکی کے روایت کیا ہے کہ انھوں نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو دیکھا کہ رفع یدین کرتے تھے۔[26]ابن الجوزی کتاب التحقیق میں فرماتا ہے۔

قال ابن الجوزي في التحقيق: وزعمت الحنفية أن أحاديث الرفع منسوخة بحديثين: فذكرهما ثم قال: وهذان الحديثان لا يرفعان أصلاً، وإنما المحفوظ عن ابن عباس. وابن الزبير خلاف ذلك فأخرج أبو داود عن ميمون المكي أنه رأى الزبير - وصلى بهم - يشير بكفيه حين يقوم. وحين يركع. وحين يسجد، قال: فذهبت إلى ابن عباس، فأخبرته بذلك، فقال: إن أحببت أن تنظر إلى صلاة رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم فاقتد بصلاة عبد اللّه بن الزبير، ولو صح ذلك لم تصح دعوى النسخ، لأن من شرط الناسخ أن يكون أقوى من المنسوخ، انتهى كلامه. [27]

(حنفیہ نے یہ دعوی کیا ہے کہ رفع یدین کی احادیث دو حدیثوں کے ساتھ منسوخ ہیں چنانچہ انھوں نے ان میں سے ایک حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں روایت کی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم رکوع جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شروع نماز میں رکھا اور باقی کو چھوڑدیا۔ دوسری روایت کو انھوں نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے ایک آدمی کو دیکھا جو رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتا تھا تو انھوں نے کہا: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پہلے پہل ایسا کیا پھراس کو ترک کردیا ۔یہ دونوں حدیثیں بالکل معروف نہیں ہیں جب کہ ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس کے بر خلاف روایات محفوظ ہیں چنانچہ ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نے میمون المکی سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو اس وقت دیکھا جب وہ ان کو نماز پڑھا رہے تھے وہ اپنی ہتھیلیوں سے نماز کے لیے کھڑے ہوتے رکوع جاتے اور سجدہ کرتے وقت اشارہ کرتے  تھے (یعنی رفع یدین ) کرتے تھے کہا: میمون نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس کی تحقیق کی تو انھوں نے اس کو مستحسن قرار دیا فر ما یا : اگر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز دیکھنا چاہتا ہے تو عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز کی اقتدار کر۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو نسخ والا دعویٰ صحیح نہیں ہے کیونکہ ناسخ کی شرط یہ ہے کہ وہ منسوخ سے زیادہ قوی ہو)

اور دلیل پکڑنا ساتھ حدیث ۔

"لا ترفعوا الايدي الا في سبع مواطن تكبيرة الافتتاح وتكبيرة القنوت وتكبيرة العيدين"

کے جیسا کہ ہدایہ میں ہے باطل ہے حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  "تخریج ہدایہ"میں فرماتے ہیں۔

لم اجد هكذا بصيغة الحصر ولايزكر القنوت ولا بتكبيرة العيدين وانما اخرج البزار والبيهقي من طريق ابن ابي ليلي عن نافع عن ابن عمر وعن الحكم عن مقسم عن ابن عباس مرفوعا وموقوفا لا ترفعوا الايدي الا في سبع مواطن في افتتاح الصلاة واستقبال القبلة وعلي الصفا والمروة وبعرفات ويجمع وفي المقامين وعند الجمرتين وفي رواية موقفين بدل المقامين وذكره البخاري في رفع اليدين بالمفرد تعليقا قال:وقال وكيع عن ابن ابي ليلي فذكر بلفظ لاترفعوا الايدي الا في سبع مواطن افتتاح الصلاة وفي استقبال القبلة فذكر الباقي مثله ثم قال:قال شعبة لم يسمع الحكم من مقسم الا اربعة احاديث ليس فيها هذا لحديث وليس هذا من المحفوظ عن النبي صلي الله عليه وسلم انتهي

وقد اخرجه الرافعي من رواية ابن جريج عن المقسم فذكر نحوه وهكذا اخرجه الطبراني من طريق محمد بن عمران بن ابي ليلي عن ابيه ابه ليلي به واخرج ابن ابي شيبة عن ابن فضيل عن عطاء بن السائب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس موقوفا واخرج الطبراني من رواية ورقاء عن عطاء مرفوعا بلفظ السجود علي سبعة الاعضاء فذكره ثم قال وترقع الايدي اذا رايت البيت وعلي الصفا والمروة ويعرفة وعند رمي الحمار واذا قمت الي الصلاة انتهي ما في الدراية تخريج الهداية[28]

(مجھے یہ روایت اس طرح حصر کے صیغے کے ساتھ ملی ہے اور نہ قنوت کے ذکر کے ساتھ اور نہ ہی تکبیرات عیدین کے ساتھ وہ تو صرف امام بزار رحمۃ اللہ علیہ  اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن ابی لیلیٰ کے طریق سے بیان کی ہے انھوں نے نافع سے انھوں نے ابن عمرو  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے انھوں نے حکم سے انھوں نے مقسم سے انھوں نے ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوعاً اور موقوفاً بیان کیا ہے کہ صرف سات جگہوں میں ہاتھ اٹھاؤ نماز کے شروع میں استقبال قبلہ کے وقت صفا و مروہ پر عرفات میں مزدلفہ میں دو مقاموں میں دو جمروں کے پاس اور ایک روایت میں "مقامین"کے بدلے"موقفین" کے الفاظ ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے جزء رفع الیدین میں اسے مفرد کے صیغے سے تعلیقاًذکر کیا ہے اور فرمایا ہے وکیع نے ابن ابی لیلیٰ سے بیان کیا ہے اور ان الفاظ میں ذکر کیا ہے صرف سات جگہوں میں ہاتھ اٹھاؤ نماز کے شروع میں اور استقبال قبلہ کے وقت اور پھر باقی کی جگہیں اسی طرح بیان کی ہیں اور پھر کہا ہے شعبہ کا کہنا ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف چاراحادیث سنی ہیں جن میں یہ حدیث نہیں ہے اور نہ یہ حدیث نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محفوظ ہے۔انتھی

امام رافعی نے اس کو ابن جریج کی روایت سے مقسم سے اسی طرح بیان کیا ہے اسی طرح امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ  نے اسے محمد بن عمران بن ابی لیلیٰ عن ابیہ عن ابی لیلیٰ کے طریق سے بیان کیا ہے ابن ابی شیبہ نے اس کو عن ابن فضیل عن عطاء بن السائب عن سعید بن جبیر عن ابن عباس کے طریق سے موقوفاً بیان کیا ہے طبرانی نے اسے درقا کی روایت سے عطا سے ان الفاظ کے ساتھ مرفوعاً بیان کیا ہے کہ سجدہ سات اعضا پر ہوتا ہے پھر ان کو ذکر فر ما یا اور پھر کہا: تو ہاتھوں کو اٹھائے گا۔ جب تو بیت اللہ کو دیکھے صفا و مروہ پر عرفہ میں رمی جمار کے وقت اور جب تو نماز کے لیے کھڑاہو)

الغرض یہ حدیث  بجمیع طرق منقطع ہے یا موقوف ہے خواہ طریق عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ عن الحکم عن المقسم عن ابن عباس سے مروی ہو۔ خواہ کسی اور سلسلہ اور اسناد سے اس لیے کہ سماع حکم راوی حدیث مذکور کا مقسم سے ثابت نہیں جیسا کہ عبارت تخریج ہدایہ میں شعبہ سے نقل کیا گیا ہے اور حدیث منقطع اور مو قوف پا یہ اعتبار سے ساقط ہیں اور قطع نظر حدیث موقوف اور منقطع ہونے سے حنفیوں کے نزدیک رفع الایدی آٹھ یا نو جگہ پائی گئی۔اگر حدیث مذکور صحیح ہوتی خلاف اس کا کیوں کرتے؟چنانچہ طحطاوی  میں لکھا ہے۔

"قوله كما ورد"اي في حديث الطبراني من طريق ابن عباس عن النبي صلي الله عليه وسلم قال:لا ترفعوا الايدي الا في سبع مواطن حين يفتتح الصلاة وحين يدخل المسجد الحرام فينظر البيت وحين يقوم علي الصفا وحين يقوم علي المروة وحين يقف مع الناس عشية عرفة وبجمع والمقامين حين يرمي الجمرة كذا في امداد الفتاح ولم يذكر  في حديث رفع القنوت والعيد والاستيلام فالدليل المذكور لم يتم ولها ادلة اخري انتهي ما في الطحاوي"

(اس قول جیسے وارد ہوا ہے یعنی طبرانی کی حدیث میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق سے وہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا صرف سات جگہوں میں ہاتھوں کو اٹھا ؤجب وہ نماز شروع کرے۔ جب وہ مسجد حرام میں داخل ہواور بیت اللہ پر نظر پڑےجب وہ صفا پر کھڑا ہو جب وہ مروہ پر کھڑا ہو جب وہ لوگوں کے ساتھ عرفہ کی شام وقوف کرے مزدلفہ میں رمی جماع کے وقت دو مقاموں میں امداد الفتاح میں ایسے ہی ہے اس حدیث میں قنوت عید اور استیلام کے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں ہوا۔ مذکورہ دلیل مکمل نہیں ہے اس کے دیگر دلائل ہیں)

دیکھئے اگر صفا اور مروہ بالفرض ایک ہی مانا جائے تو بھی نوسے نہیں پس حجت پکڑنا احناف کرام کا ساتھ اس حدیث کے باطل ہوا۔

كمالا يخفي علي من له ادني فطانة

اور دلیل پکڑنا ساتھ حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے جو روایت کیا ہے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اور حدیث یہ ہے ۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ، كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ، اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» الحديث[29]

(جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا مجھے کیا ہے کہ میں تمھیں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو جیسے سر کش گھوڑوں کی دُمیں ہیں نماز میں سکون اختیار کرو)

باطل ہے اس واسطے کہ یہ رفع یدین وہ نہیں ہے جو اوپر مذکورہوا بلکہ یہ رفع یدین وہ ہے کہ جب لوگ سلام دائیں اور بائیں کرتے تھے تو ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے اور چوں کہ یہ فعل منافی خشوع و خضوع تھا لہٰذا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فر مایا چنانچہ دوسری روایت میں جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ آیا ہے۔

عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي الله عنه قَالَ : كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ - وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبَيْنِ - فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( عَلَامَ تُومِئُونَ بِأَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ ؟ (يعني مضطربة) إِنَّمَا يَكْفِي أَحَدَكُمْ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ ثُمَّ يُسَلِّمُ عَلَى أَخِيهِ مَنْ عَلَى يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ) . [30]

(فرمایا جب ہم رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے تو ہم کہتے تھے "السلام علیکم"و رحمۃاللہ السلام علیم ورحمۃ اللہ"اور دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرتے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے ہاتھوں سے یوں اشارہ کرتے ہو گویا وہ سر کش گھوڑوں کی دُمیں ہیں تمھارے ہر ایک کو یہی کافی ہے کہ وہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے پھر دائیں اور بائیں اپنے بھائیوں کو سلام کہے)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت میں فرماتے ہیں۔

"والمراد بالرفع المنهي عنه ههنا رفعهم ايديهم عند السلام مشيرين الي السلام من  الجانبين كما صرح به في الرواية الثانية  انتهي كلامه"[31]

(اس حدیث میں جو ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ وہ سلام پھیرتے وقت اپنے ہاتھ اٹھاتےتھے اور سلام کے ساتھ (دائیں اور بائیں ) دونو ں جانب اشارہ کرتے تھے جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی صراحت کی گئی ہے)

چونکہ یہ رفع یدین ماسوا ہے رفع یدین اول کے اس لیے اس کو باب التشہد میں ذکر کیا۔ اگر مان بھی لیا جائے تو لازم آئے گا خصم پر باطل اور منہی ہو نا رفع یدین وقت تکبیر تحریمہ اور عیدین کا ،امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ "جزء رفع یدین "میں فرماتے ہیں۔

قال البخاري فأما احتجاج بعض من لا يعلم بحديث وكيع عن الأعمش عن المسيب بن رافع عن تميم بن طرفة عن جابر بن سمرة رضى الله تعالى عنه قال « دخل علينا النبي   صلي  الله عليه وسلم ونحن رافعوا أيدينا في الصلاة فقال ما لي رافعي أيديكم كأنها أذناب خيل شمس اسكنوا في الصلاة » فإنما كان هذا في التشهد لا في القيام كان يسلم بعضهم على بعض فنهى النبي  صلي  الله عليه وسلم عن رفع الأيدي في التشهد ولا يحتج بهذا من له حظ من العلم هذا معروف مشهور لا اختلاف فيه ولو كان كما ذهب إليه لكان رفع الأيدي في أول التكبيرة وأيضا تكبيرات صلاة العيد منهيا عنها لأنه لم يستثن رفعا دون رفع. انتهي كلامه[32]

(وکیع کی اعمش سے ان کی مسیب بن رافع سے ان کی تمیم بن طرفہ سے اور ان کی جابربن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی حدیث جس میں وہ کہتے ہیں کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم نماز میں (سلام پھیرتے وقت ) اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فر مایا :’’مجھے کیا ہے کہ میں تمھیں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے ہاتھ اٹھاتے ہو جیسے سر کش گھوڑوں کی دُمیں ہوتی ہیں نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘

سے بعض نہ جاننے والوں نے احتجاج کیا ہے (مگر ان کا یہ احتجاج درست نہیں ہے) اس لیے کہ ان کا یوں ہاتھ اٹھانا تشہد میں تھا نہ کہ قیام میں وہ ایک دوسرے کو سلام کہتے تھے تو نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے تشہد میں ہاتھ اٹھانے سے منع کردیا جس کو علم کا تھوڑا سابھی حصہ ملا ہے وہ اس سے (ترک رفع پر) احتجاج  نہیں کرتا ہے چنانچہ یہ بات معروف مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اگر مذکورہ حدیث کا یہی مطلب ہوتا تو پھر تکبیر تحریمہ کے وقت نیز عیدین کی تکبیرات میں بھی ہاتھوں کو اٹھانا منع ہوتا کیوں کہ مذکورہ روایت کسی رفع یدین کو مستثنیٰ نہیں کرتی)

پس دعویٰ کرنا حناف کرام کا کہ حدیث رفع یدین کی منسوخ ہے دعویٰ بلا دلیل ہے کما عرفت منا سابقا اور فقہائے محققین نے بھی اس کے ثبوت اور سنت ہونے کا اقرار کیا ہے دیکھو مولانا عبد العلی حنفی لکھنوی ارکان اربعہ میں فرماتے ہیں ۔

ان ترك فهو حسن وان فعل فلا باس به انتهي كلامه

(اگر وہ چھوڑ دے تو اچھا ہے اور اگر کرے تو کو ئی حرج نہیں ہے)(شیخ عبد الحق محدث دہلوی شرح سفر السعادۃ میں فرماتے ہیں۔"پس چارہ نیست لکن اکثر فقہاءو محدثین اثبات آں میکنند"انتھی (پس کوئی چارہ نہیں ہے لیکن اکثر فقہاء و محدثین اس کا اثبات کرتے ہیں)شاہ ولی اللہ محدث دہلوی "حجۃ اللہ البالغۃ " میں فر ماتے ہیں۔

والذي يرفع احب الي ممن لا يرفع لان احاديث الرفع اكثر واثبت انتهي كلامه[33]

(جو رفع یدین کرتا ہے وہ مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے جو رفع یدین نہیں کرتا کیوں کہ رفع یدین کی احادیث زیادہ ہیں اور زیادہ ثابت شدہ ہیں)

حاصل ان عبارات کا یہ ہے کہ رفع یدین کا کرنا سنت ہے اور یہی مذہب ہے تمام محدثین قدیماً و حدیثاً کا جیسا کہ اوپر گزرا اور جو شخص باوجود اس تحقیق کے از راہ حمیت مذہبی کے منکر ہو تو وہ داخل ہے تحت اس آیت کریمہ کے

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورة النساء

(اور جو کوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت خوب واضح ہو چکی اور مومنوں کے راستے کے سوا(کسی اور)کی پیروی کرے ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے۔جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور بری لوٹنے کی جگہ ہے)

اور جو شخص طعن کرے حدیث رفع یدین پر بلا شبہہ بدعتی ہے اس لیے کہ روایت کیا اس حدیث کو بخاری و مسلم نے اور جو شخص کہ ان دونوں کتابوں کی حدیثوں پر طعن کرے وہ بدعتی ہے چنانچہ ولی اللہ صاحب "حجۃ اللہ البالغۃ"میں فرماتے ہیں۔

قال: أما الصحيحان فقد اتفق المحدثون على أن جميع ما فيهما من المتصل المرفوع صحيحٌ بالقطع ، وأنهما متواتران إلى مصنفيهما ، وأنه كل من يهون أمرهما مبتدع ، متبع غير سبيل المؤمنين . [34]

(جہاں تک بخاری ومسلم کا تعلق ہے تو محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ اس کی تمام متصل و مرفوع احادیث قطعی طور پر صحیح ہیں اور یہ دونوں کتابیں اپنے اپنے مصنف تک متواتر ہیں جس شخص نے ان دونوں کی توہین سمجھی وہ مبتدع ہے اور مومنوں کے سوا غیروں کی راہ کا متبع ہے)

امام بخاری "جز ء رفع یدین "میں فرماتے ہیں ۔

فمن زعم ان رفع اليدين بدعة فقد طعن في اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والسلف ومن بعدهم وأهل الحجاز واهل المدينة وأهل مكة وعدة من اهل العراق واهل الشام واليمن وعلماء خراسان منهم ابن المبارك حتى شيوخنا عيسي بن موسي ابو احمد وكعب بن سعيد والحسن بن جعفر ومحمد بن سلام انتهي كلامه

(جس شخص نے یہ دعویٰ کیا کہ رفع یدین کرنا کرنا بدعت ہے تو یقیناً اس نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب سلف صالحین ان کے بعد کے لوگوں اہل حجاز اہل مدینہ اہل مکہ کئی ایک اہل عراق اہل شام اہل یمن اور علمائے اہل خراسان جن میں ابن مبارک حتی کہ ہمارے شیوخ عیسیٰ بن موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ  ابو احمد کعب بن سعید رحمۃ اللہ علیہ  حسن بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ  اور محمد بن سلام  رحمۃ اللہ علیہ  شامل ہیں ان پر طعن کیا)

آیندہ تو فیق فہم من اللہ ہے اور وہی مرشد وہادی حقیقی ہے

﴿مَن يَهدِ اللَّهُ فَهُوَ المُهتَدِ وَمَن يُضلِل فَلَن تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرشِدًا ﴿١٧﴾... سورة الكهف

(واللہ اعلم بالصواب)

جواب سوال دوم:۔

آمین بآواز بلند کہنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے دلیل جمہورکی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جو روایت کی ہے ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  نے

"عن ابو هريرة رضي الله عنه كان صلي الله عليه وسلم اذا تلا غ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ قال أمين[35]

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم:

"غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ"

پڑھتے تو آمین کہتے حتی کہ صف اول کے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے آپ کی آواز سن لیتے)

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  نے وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے۔

عن وائل بن حجر رضي الله عنه قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا قرأ ( وَلَا الضَّالِّينَ ) ، قال : آمين ، ورفع بها صوته [36]

(وائل بن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب

"غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ "

پڑھتے تو آمین کہتے اور اس کے ساتھ آواز بلند کرتے)

اور بلوغ المرام میں ہے ۔

عن ابى هريرة رضى الله عنه,قال : كان رسول الله صلى الله عليه واله وسلم اذا فرغ من قراءة ام القرآن, رفع صوته و قال(ِأمين) رواه الدارقطني وحسنه والحاكم وصححه انتهي ما في بلوغ المرام لابن حجر العسقلاني[37]

(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  بیان کرتے  ہیں کہ جب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اُم القرآن (سورۃ الفاتحہ ) کی قرآءت سے فارغ ہوتے تو بلند آواز کے ساتھ آمین کہتے ۔ اسے امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  نے بیان کیا اور اسے حسن کہا نیز حاکم نے روایت کیا اور اسے صحیح قراردیا ہے)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ  نے عطاء سے روایت کیا ہے۔

قال أدركت مئتين من أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ في هذا المسجد ؛ إذا قال الإمام : { غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ } ؛ سمعت لهم رجة بـ (آمين)[38]

(میں نے اس مسجد میں نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو سو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو دیکھا ہے کہ جب امام وَلاَ الضَّالِّينَ کہتا تو میں نے سنا کہ ان کے آمین کہنے سے گونج پیدا ہو جاتی)

امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا ہے۔

وعن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما حسدتكم اليهود على شيء ما حسدتكم على السلام والتأمين» [39]

(سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   سے مروی ہے کہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : یہودی تم سے کسی چیز پر اتنا حسد نہیں کرتے جتنا سلام اور آمین کہنے پرتم سے حسد کرتے ہیں)

اور حدیث وائل  بن حجر رحمۃ اللہ علیہ کو روایت کیا ترمذی نے بھی اور کہا ترمذی نے۔

قال الترمذي : "حَدِيثُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ ، وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ ، يَرَوْنَ أَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّأْمِينِ وَلَا يُخْفِيهَا ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ ". [40]

وائل  بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مروی حدیث حسن ہے نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اصحاب تابعین اور اتباع التابعین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کئی اہل علم اس کے قائل ہیں ان سب کا یہ موقف تھا کہ آدمی آمین کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے اور اسے پست نہ کرے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  احمد رحمۃ اللہ علیہ  اور اسحاق  رحمۃ اللہ علیہ  بھی اسی کے قائل ہیں)

اور حدیث (وَخَفَضَ بِهَا صَوْتَهُ) کی جو روایت کیا ہے ترمذی نے خطا کیا ہے شعبہ نے کئی بات میں چنانچہ ترمذی خود کہتا ہے۔

ﻗَﺎﻝَ ﺃَﺑُﻮ ﻋِﻴﺴَﻰ ﻭ ﺳَﻤِﻌْﺖ ﻣُﺤَﻤَّﺪًﺍﻳَﻘُﻮﻝُ ﺣَﺪِﻳﺚُ ﺳُﻔْﻴَﺎﻥَ ﺃَﺻَﺢُّ ﻣِﻦْ ﺣَﺪِﻳﺚِ ﺷُﻌْﺒَﺔَ ﻓِﻲ ﻫَﺬَﺍ ﻭَﺃَﺧْﻄَﺄَﺷُﻌْﺒَﺔُ ﻓِﻲ ﻣَﻮَﺍﺿِﻊَ ﻣِﻦْ ﻫَﺬَﺍ ﺍﻟْﺤَﺪِﻳﺚِ ﻓَﻘَﺎﻝَ ﻋَﻦْ ﺣُﺠْﺮٍ ﺃَﺑِﻲ ﺍﻟْﻌَﻨْﺒَﺲِﻭَﺇِﻧَّﻤَﺎ ﻫُﻮَ ﺣُﺠْﺮُ ﺑْﻦُ ﻋَﻨْﺒَﺲٍ ﻭَﻳُﻜْﻨَﻰ ﺃَﺑَﺎ ﺍﻟﺴَّﻜَﻦِ ﻭَﺯَﺍﺩَ ﻓِﻴﻪِ ﻋَﻦْ ﻋَﻠْﻘَﻤَﺔَﺑْﻦِ ﻭَﺍﺋِﻞٍ ﻭَﻟَﻴْﺲَ ﻓِﻴﻪِ ﻋَﻦْ ﻋَﻠْﻘَﻤَﺔَ ﻭَﺇِﻧَّﻤَﺎ ﻫُﻮَ ﻋَﻦْ ﺣُﺠْﺮِ ﺑْﻦِ ﻋَﻨْﺒَﺲٍﻋَﻦْ ﻭَﺍﺋِﻞِ ﺑْﻦِ ﺣُﺠْﺮٍ ﻭَﻗَﺎﻝَ ﻭَﺧَﻔَﺾَ ﺑِﻬَﺎ ﺻَﻮْﺗَﻪُ ﻭَﺇِﻧَّﻤَﺎ ﻫُﻮَ ﻭَﻣَﺪَّ ﺑِﻬَﺎﺻَﻮْﺗَﻪُانتهي[41]

(میں نے امام محمد (بن اسماعیل البخاری) کو یہ کہتے ہوئے سنا اس سلسلے میں سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے شعبہ نے اس حدیث میں کئی جگہ غلطی کی ہے چنانچہ اس نے کہا ہے۔"عن حجر ابی العنبس "جب کہ اصل میں یہ "حجر بن العنبس "ہے اور اس کی کنیت ابو سکن ہے۔اس نے اس کی سند میں علقمہ بن وائل کا اضافہ  کردیا ہے حالاں کہ اس میں علقمہ بن وائل نہیں ہے یہ تو حجر بن عنبس سے مروی ہے جو وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بیان کرتے ہیں نیز اس نے اس حدیث میں یہ لفظ بیان کیے ہیں۔"خفض بھا صوتہ "انھوں نے اس (آمین ) (کے ساتھ آواز کو پست کیا) جب کہ اصل الفاظ یہ ہیں :"مدبھا صوتہ (انھوں نے اس کے ساتھ آواز کو بلند کیا)

اور یہ بھی معلوم رہے کہ علقمہ کا سماع وائل سے ثابت نہیں ہے پس یہ حدیث منقطع ہوئی اور حدیث منقطع قابل احتجاج نہیں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ "تہذیب  التہذیب"میں فرماتے ہیں۔

علقمة بن وائل بن حجر (1) الحضرمي الكندي الكوفي.
روى عن أبيه والمغيرة بن شعبة وطارق بن سويد على خلاف فيه.
وعنه أخوه عبد الجبار وابن أخيه سعيد بن عبد الجبار وعبد الملك بن عمير وعمرو بن مرة وسماك ابن حرب واسماعيل بن سالم وجامع بن مطر وسلمة بن كهيل وموسى بن عمير العنبري وقيس بن سليم العنبري وأبو عمر العائذي.

ذكره ابن حبان في الثقات.

قلت: ذكره ابن سعد في الطبقة الثالثة من أهل الكوفة وقال كان ثقة قليل الحديث وحكى العسكري عن ابن معين أنه قال علقمة بن وائل عن أبيه مرسل. انتهي ما في تهذيب التهذيب[42]

(علقمہ بن وائل بن حجر حضرمی کندی نے اپنے والد اور مغیرہ بن شعبہ اور طارق بن سوید سے (اس میں اختلاف ہے)روایت کی ہے اور ان سے ان کے بھائی عبد الجبار اور ان کے بھتیجے سعید بن عبد الجبار عبدالملک بن عمیر عمرو بن مرہ سماک بن حرب اسماعیل بن سالم جامع بن مطر سلمہ بن کہیل موسیٰ بن عمیر عنبری قیس بن سلیم عنبری اور ابو عمر و عابدی نے روایت کی ہے ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے میں کہتا ہوں ابن سعد نے انھیں اہل کوفہ سے تیسرے طبقے میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے وہ ثقہ اور قلیل الحدیث تھے عسکری نے ابن معین سے یہ حکایت کیا ہے کہ انھوں نے کہا ہے۔" علقمة بن وائل عن أبيه "مرسل ہے۔

امام نووی "تہذیب الاسماء "میں فر ماتے ہیں۔

علقمة بن وائل المذكور في المهذب في اول باب الاقطاع من كتاب احياء الموات هو علقمة بن وائل بن حجر الحضرمي الكوفي ابوه صحابي وهو تابعي روي عن ابيه والمغيرة بن شعبة وطارق بن سويد روي عنه سماك بن حرب وعبد الملك بن عمير وغيرهم وهو ثقة بالاتفاق قال يحيي بن معين وروايته اخيه عبد الجبار عن ابيهما مرسلة لم يدركاه انتهي[43]

(علقمہ بن وائل جو "المہذب"کی کتاب "احیاءالموت " کے باب "الاقطاع "کے شروع میں مذکور ہے وہ علقمہ بن وائل بن حجر حضرمی کوفی ہے۔ ان کا والد صحابی اور وہ خود تابعی ہے انھوں نے اپنے والد مغیرہ بن شعبہ اور طارق بن سوید سے روایت کی ہے جب کہ ان سے سماک بن حرب اور عبد الملک بن عمیر وغیرہ نے روایت کی ہے وہ بالاتفاق ثقہ ہے یحییٰ بن معین نے کہا ہے ان کی روایت اور اس کے بھائی عبدالجبار کی اپنے باپ سے روایت مرسل ہے کیوں کہ انھوں نے اس کو نہیں پایا ہے)

اور ابن الہمام بھی عدم سماع کا قائل ہے کذافی فتح القدیر[44]اور حدیث (اخفي بهاصوته ) کی جو روایت کیا ہے حاکم نے سو ضعیف کہا ہے اس کو مولانا بحرالعلوم نے ارکان اربعہ میں۔

اما جهر التامين للامام والماموم فلما روي مسلم عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : إذَا أَمَّنَ الإِمَامُ فَأَمِّنُوا , فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلائِكَةِ : غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .))واما اسرار التابعين  فهو مذهبنا ولم يروفيه الاما روي الحاكم عن علقمة بن وائل عن ابيه انه اذا بلغ ولا الضالين قال:أمين واخفي بها صوته وهو ضعيف وقد بين في فتح القدير وجه ضعفه لكن الامر فيه سهل فان السنة التامين اما الجهر والاخفاء فندب انتهي كلامه"[45]

(امام اور مقتدی کا جہری آواز کے ساتھ آمین کہنے کی دلیل وہ ہے جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ  نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا انھوں نے کہا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :’’جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق (ساتھ ) ہوگئی اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔‘‘ رہا تابعین کا مخفی آواز میں آمین کہنا جو ہمارا مذہب ہے تو اس بارے میں صرف وہی روایت مروی ہے جس کو امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ  نے علقمہ بن وائل عن ابیہ سے بیان کیا ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  جب وَلاَ الضَّالِّينَ تک پہنچے تو آمین کہا اور اس کے ساتھ آواز کو پست کیا یہ روایت ضعیف ہے چنانچہ "فتح القدیر "میں اس کی وجہ ضعف بیان کی گئی ہے لیکن اس کے بارے میں فیصلہ کرنا بہت آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ آمین کہنا سنت ہے رہا اس کو جہری یا مخفی کہنا تو وہ مندوب ہے)

مولانا محمد اسماعیل شہید "تنویر العینین "میں فرماتے ہیں ۔

والتحقيق عن الجهر بالتامين اولي من خفضه انتهي كلامه

حاصل یہ ہے کہ آہستہ آمین کہنے کے باب میں کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں ہوئی جیسا کہ معلوم ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حرره الراجي رحمة ربه القوي ابو المكارم محمد علي صانه الله من شركل غبي وغوي

ابو المکارم محمد علی (1299ء)خادم شریعت رسول الثقلین محمد تلطف حسین (1292ء)محمد نذیر حسین (1281ھ)زشرف سید کونین شدہ شریف حسین (1293ھ)

سید احمد حسن (1289ھ)محمد بن عبد اللہ (1289ھ)

محمد عبد الحمید (1293ھ)المعتصم بحبل اللہ الاحد ابو البرکات حافظ محمد (1292ھ)

محمد عبدالغفار (1288ھ) محمد عبد العزیز (1288ھ)

شہاب الدین (1288ھ) محمد عبد اللہ (1291ھ)


[1] ۔صحیح البخاری رقم الحدیث (705)صحیح مسلم رقم الحدیث (390)سنن ابی داؤد رقم الحدیث (721)سنن الترمذی رقم الحدیث (255)سنن النسائی رقم الحدیث (786)سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (858)سنن الدارمی(342/1)

[2] ۔شرح صحیح مسلم (95/4)

[3] ۔صحیح البخاری : رقم الحدیث (706)

[4] ۔جزء رفع الیدین (ص:37)

[5] ۔جزء رفع الیدین (ص38)

[6] ۔سنن النسائی رقم الحدیث (1056)

[7] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (391)

[8] ۔کتاب الام (430/7)

[9] ۔جزء رفع الیدین (2)

[10] ۔جزء رفع الید ین(ص11)

[11] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (748)سنن الترمذی رقم الحدیث (257)

[12] ۔التلخیص  الجبیر(222/1)

[13] ۔جزء رفع الیدین (ص9)

[14] ۔جزء رفع الیدین (ص9)

[15] ۔سنن ابن داؤد رقم الحدیث (749)

[16] ۔عمدۃ القاری(273/5)

[17] ۔کتاب الضعفاء (100/3)

[18] ۔سنن ابی داود رقم الحدیث (750)

[19] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (752)

[20] ۔جزء رفع الیدین (ص:10)

[21] ۔جزء رفع الیدین(ص:1009)

[22] نصب الرایۃ(404/1)

[23] ۔کتاب العلل و معرفہ الرجال (368/1)

[24] ۔التحقیق لابن الجوزی (232/1)

[25] ۔جزء رفع الیدین (ص:7)

[26] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (19)

[27] ۔التحقیق فی الحدیث الخلاف(332/1)

[28] ۔الدرایۃ کا بن حجر (148/1)

[29] ۔صحیح مسلم رقم الحدیث (430)

[30] صحیح مسلم روم الحدیث (431)

[31] ۔شرح صحیح مسلم (153/4)

[32] ۔جزء رفع یدین (ص10)

[33] ۔حجۃ اللہ البالغۃ (ص34)

[34] ۔حجۃ اللہ البالغۃ (ص183)

[35] ۔ سنن ابی داؤد رقم الحدیث (934)اس کی سند میں بشر بن رافع اور ابن عم ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ضعیف ہیں۔

[36] ۔سنن ابی داؤد رقم الحدیث (892)

[37] ۔سنن داقطنی (3351/1)المستدرک )(223/1) بلوغ المرام رقم الحدیث (281)

[38] ۔سنن دارقطنی (592)

[39] ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث (656)

[40] ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث (248)

[41] ۔سنن الترمذی رقم الحدیث (248)

[42] ۔تہذیب التہذیب (247/7)

[43] تہذیب التہذیب (247/7)

[44] تہذیب الاسماء واللغات (481/1)

[45] ۔فتح القدیر(295/1)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:145

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ