ایک عورت کو ایام(حیض) ایک ماہ میں صر ف ایک بار آخر دے میں آیا کرتے تھے اب چند روز سے دہے ثانی میں بھی خون آنے لگا،یعنی اب ایک ماہ میں دوبار خون آنے لگا۔ایسی صورت میں عورت مذکورہ(آخردہے اور ثانی دہے دونوں میں) نماز چھوڑدے یا کیا کرے؟اس کے بارے میں بھی حدیث سے کیا حکم ہے؟
خون حیض اور خون استخاضہ میں فرق ہے عورتیں اس فرق کو بیشتر خوب جانتی ہیں۔صحیح بخاری میں ایک ماہر ذی علم(محمد بن سیرین) کا قول مذکور ہے کہ جب ان سے یہ مسئلہ پوچھا گیا کہ عورت حیض گزر جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھے تو کیا کرے؟فرمایا:"النساء اعلم بذالك"( صحیح بخاری(1/123)) یعنی عورتیں اس کو خوب جانتی ہیں۔
نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ ایک ماہ میں دوحیض ،بلکہ تین حیض بھی آسکتے ہیں،چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ مذکور ہے کہ ایک عورت اور اس کے خاوند میں تکرار تھی۔طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزری تھی۔خاوند چاہتا تھا رجعت کرنا اور عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں مجھ کو تین حیض آچکے ،اس پر دونوں صاحبوں نے فرمایا:
یعنی اگر یہ عورت اپنے گھر کی دیندار معتبر راز اور عورتوں کو گواہی میں پیش کرے کہ اس عورت کو ایک مہینے میں تین بار حیض آیا تو اس کی تصدیق کرلی جائے گی۔
پس صورت مسئولہ میں اگر دہے ثانی کا خون بھی حیض کا خون ہے تو عورت مذکورہ دونوں میں نماز چھوڑ دے،ورنہ صرف آخر دہے میں نماز چھوڑ دے عادت کے موافق اور دہے ثانی میں نماز پڑھے،لیکن یہ ہر نماز کے وقت تازہ وضو کرلیا کرے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔(کتبہ محمد عبداللہ)
[1] ۔صحیح البخاری(1/123) صحیح بخاری میں یہ دونوں اثر تعلیقاً مروی ہیں،البتہ امام دارمی(1/233) نے سے موصولاً بیان کیا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ورجالہ ثقات"(فتح الباری:1/425) نیز دیکھیں :تغلبوالتعلیق(2/179)