السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
انشورنس کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر تحریر فرما دیں۔ (عبدالرحیم سیال، محلہ ٹھٹھی مشرقی جھنگ روڈ چنیوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیمہ پالیسی مطلق طور پر ناجائز اور حرام ہے خواہ زندگی کا بیمہ ہو یا مکان اور گاڑیوں کا کیونکہ یہ جوئے اور سود کا مرکب ہے۔
(1) یہ اپنی اصل وضع میں جوئے اور سود کا مرکب ہے اور یہ دونوں اسلام میں حرام ہیں اگر مقررہ مدت سے پہلے بیمہ دار کی موت یا املاک کا نقصان ہو جائے تو کمپنی کو نقصان ہوتا ہے اگر وہ پوری قسطیں جمع کرا دے تو کمپنی کو فائدہ ہوتا ہے اور یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں کہ قسطیں پوری ادا ہو سکیں گی یا نہیں اور سود اس لیے ہے کہ بیمہ دار اگر پوری قسطیں جمع کرا دے تو اسے اس کی جمع شدہ رقم کے ساتھ سود دیا جاتا ہے قرآن حکیم کہتا ہے۔ " فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ " تمہارے لیے تمہارا اصل مال ہے۔
(2) بیمہ سے وراثت کا نظام شرعی ختم ہو کر رہ جاتا ہے کیونکہ بیمہ کی رقم بیمہ دار کے مرنے کے بعد اس کے نامزد کردہ شخص ہی کو ملے گی جبکہ ہر شرعی وارث ترکہ کا حقدار ہوتا ہے جو کام کتاب و سنت کے نظام کو درہم برہم کر دے وہ جائز کیسے ہو سکتا ہے۔
(3) عقیدہ توحید پر ایمان کا تقاضا ہے کہ جائز اور شرعی اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور مستقبل میں پیش آنے والے حالات اللہ کے سپرد کر دئیے جائیں جبکہ بیمہ اس سے فرار کی راہ بتلاتا ہے۔ کیونکہ وہ پہلے سے حالات و حوادث کی پیش بندیاں ناجائز طریقوں سے کر رہے ہوتے ہیں۔
(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم بھی اس دنیا میں رہ چکے ہیں ان کی اولادیں، جائیداد و املاک بھی تھیں۔ انہوں نے ایسے ناجائز تحفظات کا اہتمام نہیں کیا۔
بیمہ کمپنیوں والے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیمہ دار نفع نقصان میں شریک ہوتا ہے یہ بار درست نہیں بیمہ کمپنی اگرچہ اس جمع شدہ رقم کے ساتھ تجارت بھی کرتی ہو لیکن وہ اس کے منافع میں سے طے شدہ حصہ بیمہ دار کو دیتے ہیں اور اصل رقم کے علاوہ طے شدہ منافع ہی سود ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ بیمہ کمپنیاں تمام حاصل شدہ سرمایہ آگے سود پر دیتی ہیں کچھ خود کھا لیتی ہیں اور کچھ بیمہ دار کے کھاتے میں درج کر دیتی ہیں۔ الغرض بیمہ پالیسی ناجائز اور حرام ہے اس کے جواز کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب