السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دینی تھی اس کے لئے وہ وثیقہ نویس کے پاس گیا اور اسے طلاق نامہ لکھنے کے لئے کہا، اس نے اشٹام پیپر پر تین طلاقیں لکھ دیں یعنی میں تجھے طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، آدمی ان پڑھ تھا، اس کا مقصود صرف طلاق دینا تھا اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے، کتاب و سنت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب عورت اور اس کے شوہر کے حالات کشیدہ ہو جائیں اور مرد طلاق دینا چاہے تو خواہ وہ ان پڑھ ہو یا پڑھا لکھا طلاق کا کلمہ زبان سے ادا کرے یا لکھ دے، یا کسی سے لکھوا کر اس پر دستخط یا انگوٹھا لگوا دے تو وہ طلاق ہو جاتی ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ تین بار طلاق کا لفظ لکھنے یا ایک مجلس کی اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی واقع ہوتی ہے جس میں مرد دوران عدت رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزر جانے پر نئے نکاح کے ساتھ اکٹھے ہو سکتے ہیں بشرطیکہ طلاق دینے کا یہ پہلا اور دوسرا موقع ہو، کتاب و سنت میں اس پر بہت سارے دلائل موجود ہیں چند ایک واقعات ہدیہ کے طور پر قارئین کو پیش کیے جاتے ہیں:
(1)۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں، اس کے بعد لوگوں نے اس مسئلہ کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کاش ہم ان پر تینوں لاگو کر دیں تو انہوں نے تینوں لاگو کر دیں۔ (صحیح مسلم، مسند احمد، مستدرک حاکم، مصنف عبدالرزاق)
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مجلس واحد کی اکٹھی تین طلاقیں عہد رسالت مآب میں ایک طلاق شمار ہوتی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ سے شرح ملتقی الابہر، جامع الرموز، حاشیہ طحطاوی علی الدرالمختار میں لکھا ہے کہ صدر اسلام میں جب اکٹھی تین طلاقیں دی جاتی تھیں تو ان پر ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگایا جاتا تھا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیاسی اور تھدیدی طور پر تین کا نفاذ کیا۔ فقہ کی ان محولہ کتب سے بھی معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ سیاسی اور تھدیدی تھا اصل شرعی فیصلہ وہی تھا جو دورِ رسالت میں بلکہ خود عہد عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی سالوں میں نافذ تھا۔
اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رکانہ بن عبد یزید رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کو تین طلاقیں اکٹھی دے دیں پھر وہ اس پر بڑے رنجور و مغموم ہوئے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ پہنچا تو آپ نے بلا کر دریافت کیا کہ تم نے طلاق کیسے دی تھی؟ انہوں نے کہا میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں آپ نے فرمایا یہ تو ایک ہی طلاق ہے اگر چاہو تو رجوع کر لو چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا۔(مسند احمد، مسند ابی یعلی، فتح الباری، اغاثۃ اللھفان)
اس حدیث کے متعلق فتح الباری شرح صحیح البخاری 9/362 کتاب الطلاق میں لکھا ہے کہ یہ حدیث تین طلاق کے مسئلہ میں نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس میں تاویل کی گنجائش نہیں۔ ان احادیث صحیحہ کی روشنی میں طلاق دھندہ کو دورانِ عدت رجوع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو ازسرنو نکاح کیا جائے گا جس میں نئے مہر کا تعین، ولی کی اجازت، عورت کی رضامندی اور دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہے جو لوگ تینوں طلاقیں نافذ کر کے حلالہ کا دروازہ دکھاتے ہیں انہیں اپنے غیور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد رکھنا چاہیے کہ حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پر اللہ کی پھٹکار و لعنت ہو۔ (بیہقی، نسائی، ابن ماجہ وغیرھا)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب