سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(136) بارش کے دوران نماز جمع کرنا

  • 22569
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1115

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں بارش کے دوران کچھ لوگ مغرب اور عشاء کی نماز اکٹھی کر کے پڑھتے ہیں اور اس عمل کے اثبات کے لئے دلیل مسلم کی اس حدیث کی دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سفر اور خوف کے مغرب و عشاء اور ظہر و عصر کی نمازیں اکٹھی کر کے پڑھی ہیں لہذا بارش کی وجہ سے بالاولی ایسا کرنا جائز ہے جبکہ فریق ثانی مسلم شریف کی دوسری حدیث پیش کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موذن کو صلوا فى رحالكم یا الا اصلوا فى بيوتكم کہنے کا حکم دیا تھا اور نمازیں جمع کرنا بھی ہوں تو عصر اور مغرب موخر کر کے پڑھنی چاہیے۔ جب کہ فریق اول مغرب کے وقت میں ہی نماز عشاء ادا کرتے ہیں جو کہ قرآن مجید کی اس آیت کے منافی ہیں ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾ (سورة النساء: 103) قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری اس مسئلے میں رہنمائی فرمائیں۔ (عبدالرحمٰن خطیب، جامع مسجد عثمانیہ اہل حدیث بمبانوالہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز اوقات مقررہ میں فرض کی ہے جیسا کہ سوال میں آیت ذکر کی گئی ہے لہذا ہمیں ہر نماز اس کے وقت میں ادا کرنی چاہیے وقت سے نکال کر صرف وہی نماز ادا ہو سکتی ہے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو، بغیر دلیل کے کسی نماز کو اس کے وقت سے قبل ادا نہیں کر سکتے۔ اسی طرح نمازوں کو جمع کرنے کے لئے بھی دلیل کی حاجت ہے۔ یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو جمع کیا ہے اگر سفر زوال شمس کے بعد کرتے تو ظہر کے وقت میں عصر بھی پڑھ لیتے تھے اسی طرح مغرب کے وقت میں عشاء ادا کر لیتے اور اگر سفر زوال سے پہلے کرتے تو ظہر کو لیٹ کرتے اور عصر کو اول وقت ادا کر لیتے۔ اسی طرح مغرب کو لیٹ کرتے اور عشاء کو اول وقت میں پڑھ لیتے۔ ملاحظہ ہو (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ 1220، 1208، بیہقی 3/162، دارقطنی 1/393، ترمذی 553، المسند المستخرج لابی نعیم 2/294) اب رہا مقیم آدمی کے لئے نماز جمع کرنا اور اس کا طریقہ کار تو بسا اوقات مقیم آدمی بھی نماز جمع کر سکتا ہے (صحیح مسلم 705) اور مغرب و عشاء کو خوف و سفر کے بغیر جمع کر کے پڑھا ہے۔ مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے مدینے میں ایسا کیا ہے یہاں پر مابہ النزاع بات یہ ہے کہ مقیم جمع تو کر سکتا ہے لیکن اس کی جمع کا طریقہ کار کیا ہے کیا مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء پڑھ سکتا ہے یا ظہر کو لیٹ کرے اور عصر کو اول وقت میں ادا کرے اسی طرح مغرب کو لیٹ کرے اور عشاء کو اول وقت میں پڑھے تو ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ مقیم ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء جمع نہیں کر سکتا۔ اگر جمع کرنا چاہے تو ظہر کو لیٹ کرے اور عصر کو اول وقت میں پڑھے اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں۔ فریق اول کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔

یہ مطلق جمع کا ذکر ہے اس کا طریقہ کار بیان نہیں ہوا۔ امام بخاری نے بھی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ذکر کیا ہے کہ " ان النبى صلى الله عليه وسلم بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر والمغرب والعشاء " (صحیح البخاری 543)

بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں سات اور آٹھ رکعات جمع کر کے ادا کیں یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء، اس حدیث پر امام بخاری نے کتاب مواقیت الصلوٰۃ میں یوں باب قائم کیا ہے، باب تاخير الظهر الى العصر یعنی ظہر کو عصر تک موخر کرنے کا بیان، سید الفقہاء امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس حدیث میں ظہر کی نماز کو عصر تک تاخیر کرنے اور مغرب کو عشاء تک تاخیر کرنے کا بیان ہے تاکہ نمازیں جمع بھی ہوں اور اپنے اپنے وقت میں ادا ہوں اور امام نسائی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو مفصل ذکر کر کے بات بالکل واضح کر دی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم بِالْمَدِينَةِ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ، وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ "(سنن النسائی 588)

"میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں آٹھ اور سات رکعات اکٹھی پڑھیں آپ نے ظہر کو لیٹ کیا اور عصر کو جلدی کیا اور مغرب کو لیٹ کیا اور عشاء کو جلدی کیا۔"

امام نسائی نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے۔ الوقت الذى يجمع فيه المقيم اس وقت کا بیان جس میں مقیم نماز جمع کرے نیز دیکھیں المسند المستخرج 2/296 ان احادیث صحیحہ اور ائمہ محدثین کی فقاہت سے واضح ہو گیا کہ مقیم آدمی نمازیں جمع کرنا چاہے تو اپنے اپنے اوقات میں پڑھے یعنی ظہر کو تاخیر سے اور عصر اول وقت میں اس طرح مغرب آخر وقت میں اور عشاء اول وقت میں لہذا فریق ثانی کا موقف درست ہے اور فریق اول غلطی پر ہے۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:178

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ