سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) مسلمانوں کی میلوں ٹھیلوں میں شرکت

  • 22461
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 985

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میلوں ٹھیلوں کی زینت بننا اسلام میں کیسا ہے؟ اور ایسے مقامات پر چلتے چلتے تقسیم ہونے والی کوئی چیز کھا لے تو کیسا ہے؟ (کارکنان لشکر طیبہ، ضلع قصور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام میں میلوں ٹھیلوں کا کوئی تصور نہیں ہے موجودہ دور میں جو عرس میلے قائم کئے جاتے ہیں ان کی قباحتیں کسی بھی ذی شعور پر مخفی نہیں، ڈھول، باجے، سرنگیاں، بھنگڑے، جوئے، شراب و افیون وغیرہ جیسی حرام چیزوں کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ایسی محفلوں میں شرکت کرنا گناہ ہے، زمانہ جاہلیت میں لوگ میلوں کا بندوبست کیا کرتے تھے جسے آج کے مسلمان کہلانے والے افراد نے کثرت سے اپنا لیا ہے اور میلوں میں اللہ کے علاوہ صاحب قبر کو سجدہ کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کہ صریح شرک ہے سجدہ صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے، ایسے مقامات پر اللہ کے نام پر بھی کوئی چیز نہیں دینی چاہیے۔ ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے بوانہ جگہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کیا وہاں ان کے میلوں میں سے کوئی میلہ تو نہیں، صحابہ کرام نے کہا نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نذر پوری کر لے اس لئے کہ اللہ کی نافرمانی میں نذر نہیں ہے اور نہ ہی اس چیز میں نذر ہے جس کا ابن آدم مالک نہیں۔ (سنن ابوداؤد، کتاب الایمان والنذور 3313، بیہقی 10/83) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ میلوں کا اسلام میں کوئی تصور نہیں اور جہاں پر اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت ہو وہاں اللہ کے نام پر نذر چڑھانا جائز نہیں، جب نذر چڑھانا جائز نہیں تو اس کا کھانا کیسے درست ہو سکتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ میری قبر کو وثن (بت) نہ بنانا، اللہ کی لعنت ہو ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ (مسند حمیدی 2/445، مسند احمد 2/246) اسی طرح آپ نے فرمایا میری قبر کو عید میلہ نہ بنانا (ابوداؤد 2042) وغیرہ لہذا ایسے میلوں میں شرکت نہ کریں اور نہ ہی وہاں سے کوئی نذر وغیرہ استعمال کریں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:60

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ