سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(291) عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا

  • 22357
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 633

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات طے شدہ ہے کہ عورت کا مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے  لیے  میدان عمل میں اترنا، مذموم اختلاط اور خلوت کا سبب بنتا ہے، اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ اس کے نتائج خطرناک اور پھل کڑوا ہوتا ہے اور انجام انتہائی برا اور ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ عورتوں کا مردوں کے ساتھ میدان عمل میں اترنا قرآنی آیات (احکام) سے متصادم ہے جو عورت کا دائرہ عمل گھر کی چار دیواری تک محدود بناتی ہیں اور اسے ایسے اعمال بجا لانے کی تلقین کرتی ہیں جن کے  لیے  عورت کی تخلیق ہوئی اور جو اس کے ساتھ مخصوص ہیں، اس طرح ہی وہ مردوں کے ساتھ اختلاط سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ ایسے صحیح اور صریح دلائل و براہین جو اجنبی عورتوں سے خلوت اپنانے، انہیں دیکھنے، شرعی محرمات کے وسائل و اسباب کے ارتکاب کو حرام قرار دیتے ہیں محکم اور کثیر تعداد میں ہیں جو کہ انجام بد سے دوچار کرنے والے مرد و زن کے اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دلائل میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

﴿وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ﴿٣٣﴾ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّـهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ﴿٣٤﴾ (الاحزاب 33؍33-34)

’’ (اے نبی کی بیویو!) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیمی زمانہ جاہلیت کی طرح اپنے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو، اے نبی کی بیویو! اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ تم سے وہ ہر قسم کی گندگی و پلیدی کو دور کر دے اور تمہیں (ہر طرح سے) خوب پاک صاف کر دے۔ تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو حدیثیں پڑھی جاتی ہیں یاد رکھو۔ یقینا اللہ تعالیٰ مخفی سے مخفی بات تک کو جاننے والا ہے ۔‘‘

نیز فرمایا:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴾ (الاحزاب 33؍59)

’’ اے نبی! اپنی بیویوں سے، اپنی صاجزادیوں اور (عام) مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی، پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ۔‘‘

مزید ارشاد ہوتا ہے:

﴿قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ﴾

’’ (اے نبی) ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے  لیے  پاکیزگی ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں یقینا اللہ تعالیٰ کو سب کچھ کی خبر ہے اور آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے ۔‘‘

ایک اور جگہ پر ہے:

﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ  ﴾  (الاحزاب 33؍53)

’’ اور تم جب ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے ۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ، قيل: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ) (رواہ الترمذی فی کتاب الرضاع و احمد 4؍49)

’’ اپنے آپ کو (اجنبی) عورتوں کے پاس جانے سے بچاؤ، پوچھا گیا یا رسول اللہ! خاوند کے بھائی کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تو موت ہے ۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجنبی عورت کے ساتھ اختلاط سے مطلقا منع کرتے ہوئے فرمایا:

(كَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ)

’’ ان کا تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔‘‘

عورت کو اجنبی مرد کے ساتھ سفر کرنے سے منع فرمایا تاکہ فساد کا سدباب کیا جا سکے، گناہ کا دروازہ بند ہو اور شر کے اسباب کا خاتمہ کیا جا سکے اور دونوں کو شیطانی مکاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ اسی  لیے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ ، فإنَّ أولَ فتنةِ بَني إسرائيلَ كانتْ في النساءِ)

’’ دنیا سے بچو! اور عورتوں سے بچو! اس  لیے  کہ بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے ہوا ۔‘‘

(مَا تَرَكْتُ بَعْدِى فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ) (رواہ مسلم فی کتاب الذکر والدعاء باب 26)

’’ میں نے اپنے بعد اپنی امت میں مردوں کے  لیے  عورتوں سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ۔‘‘

مذکورہ بالا آیات مبارکہ اور احادیث نبویہ اس امر کی واضح دلیل ہیں کہ ایسے اختلاط سے دور رہنا ضروری ہے جو کہ فتنہ و فساد کو جنم دیتا ہو۔ خاندانوں کو تباہ کرتا ہو اور معاشرے کو برباد کرنے کا سبب بنتا ہے۔ جب ہم بعض اسلامی ممالک میں عورت کی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلنے اور اپنی فطری ذمہ داریوں سے ہٹ کر دیگر کاموں میں مشغول ہونے کی بناء پر ذلت و پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے مغرب اور مغرب کے مقلد ممالک میں بعض دانشور اب دوبارہ عورت کو اس کے اس فطری دائرہ عمل میں لانے کے  لیے  نعرہ زن ہیں۔ وہ فطری کردار و عمل جس کے  لیے  قدرت نے اس کی تخلیق کی اور جس کے  لیے  جسمانی و عقلی طور پر اس کی ترکیب فرمائی، لیکن یہ وقت بیت جانے اور سب کچھ کھونے کے بعد ہو رہا ہے۔

اگر خواتین گھریلو کام کاج میں حصہ لیں، درس و تدریس اور عورتوں سے متعلق دیگر شعبہ ہائے حیات میں کام کریں تو انہیں مردوں کے ساتھ مصروف عمل ہونے کی قطعا ضرورت نہیں رہے گی۔ ہم اللہ رب العزت کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ تمام بلاد اسلامیہ کو دشمنان اسلام اور ان کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ فرمائے۔ تمام ذمہ داران اور اصحاب قلم و قرطاس کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ ایسے امور کی طرف مسلم عوام کی رہنمائی کریں جو دن و دنیا میں ان کے معاملات کی اصلاح کر سکیں۔ وہ اپنے رب کے احکام کو نافذ کریں جو ان کا خالق ہے اور ان کی بھلائی سے بخوبی آگاہ ہے۔

اللہ تعالیٰ تمام دیار اسلام کے ذمہ دار حضرات کو ہر وہ کام کرنے کی توفیق ارزاں فرمائے جس میں بندگان رب اور بلاد اسلامیہ کا بھلا ہو۔ ان کے معاش اور معاد کے معاملات کی درستگی ہو۔ وہ ہم سب کو، جملہ اہل اسلام کو اور مسلم حکمرانوں کو گمراہ کن فتنوں اور اپنی ناراضگی کے اسباب سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین۔ انه ولى ذلك والقادر عليه ۔ شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

مختلف فتاویٰ جات،صفحہ:312

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ