السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میری عمر چالیس سال ہے میں شادی شدہ ہوں اور پانچ بچوں کی ماں۔ میرا خاوند بارہ مئی 1985ء کو فوت ہو گیا، لیکن میں خاوند اور اولاد سے متعلقہ بعض امور کی انجام دہی کی بنا پر عدت نہ گزار سکی۔ اس کی وفات کے ٹھیک چار ماہ بعد یعنی بارہ ستمبر 1985ء کو میں نے عدت گزارنا شروع کی، لیکن ایک ماہ بعد پھر مجھے مجبورا گھر سے نکلنا پڑا، کیا یہ ایک ماہ عدت میں شمار ہو گا؟ اور کیا خاوند کی وفات کے چار ماہ بعد عدت گزارنا صحیح ہے یا نہیں؟ اس امر سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ مجھے گھر کے بعض ضروری کاموں کی وجہ سے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے، میرے گھر میں ایسا کوئی فرد نہیں ہے جس پر میں گھریلو معاملات کے بارے میں اعتماد کر سکوں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ کا یہ عمل ایک ممنوع (حرام) عمل ہے، کیونکہ خاوند کی وفات کے ساتھ ہی عورت پر عدت اور سوگ واجب ہو جاتا ہے اسے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا﴾ (البقرة 2؍234)
’’ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں۔
آپ کا چار ماہ تک انتظار کر کے پھر عدت شروع کرنا، گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور کثرت سے نیک عمل بجا لانے چاہئیں۔ شائد اس طرح اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرما دے۔ عدت کا وقت گزر جانے پر اس کی قضا نہیں دی جا سکتی۔ ۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب