السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون نے اپنے باپ کے ترکہ میں سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ وکیل نے اپنی مؤکلہ سے جو فیس طلب کی وہ اس کے پاس نہیں تھی، تو وکیل نے اس کی وکالت کے عوض اس سے شادی کا مطالبہ کیا جبکہ وہ پہلے سے شادی شدہ ہے، لیکن اس کا خاوند اس کے پاس موجود نہیں وہ بسلسلہ روزگار ملک سے باہر ہے۔ اس عورت نے خاوند کے خلاف اس وکیل کی وساطت سے فسخ نکاح کا کیس درج کرا دیا۔ خاوند کا ایڈریس اس کی بیوی کے پاس موجود تھا، لیکن وکیل نے خاوند سے رابطہ کئے بغیر ہی ایسا کر ڈالا۔ عورت نے خاوند اپنی بیوی، گیارہ سالہ بیٹی اور آٹھ سالہ بیٹے کے جملہ اخراجات بھی بھیجا کرتا تھا۔ اس شادی کا کیا حکم ہے؟ اور نیز لڑکے اور لڑکی کی پرورش کس کے ذمے ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک سنگین و بدترین اور حرام جرم ہے اور فاسد حیلہ بھی، کیونکہ عورت ابھی تک خاوند کے عقد میں ہے۔ اس کا خاوند اپنے بیوی بچوں کے اخراجات بھیجتا رہا ہے، نیز اس لیے بھی کہ وکیل عورت سے خود نکاح کرنے کے لیے فسخ نکاح کے لیے کوشاں رہا، جبکہ اس کے خاوند سے رابطہ قائم کرنا، اس کا عذر سننا اور معقول مدت تک اسے مہلت دینا ممکن تھا۔ ان حالات میں اگر فسخ نکاح، شرعی حاکم کے ذریعے، معقول اسباب اور جواز کی بناء پر ہو تو نکاح فسخ ہو جائے گا اور اگر اس کے لیے کوئی معقول سبب اور جواز نہ تھا تو ایسا کرنا ناجائز ہو گا، عورت بدستور پہلے خاوند کی بیوی ہی رہے گی اور اس کا عقد ثانی حرام ہو گا۔
رہا اولاد کا مسئلہ تو وہ اپنی ماں کے پاس ہی رہے گی، اگر دوسرا خاوند اس بارے میں رکاوٹ بنتا ہے تو پھر ان کی سرپرستی و پرورش کا ذمہ ماں یا باپ کے قریبی رشتے داروں کو منتقل ہو جائے گا اور اگر باپ جلدی واپس لوٹ آتا ہے تو اسے اپنی صوابدید کے مطابق مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے۔شیخ ابن جبرین
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب