سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) سقوط حمل کا حکم

  • 22123
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1019

سوال

(57) سقوط حمل کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض عورتوں کا حمل ساقط ہو جاتا ہے۔ ایسا حمل کبھی تو خلقت مکمل کر چکا ہوتا ہے اور کبھی غیر مکمل ہی ساقط ہو جاتا ہے۔ ان دونوں صورتوں میں عورت کے  لیے  نماز کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب عورت ایسا حمل ساقط کر دے جس میں سر، ہاتھ اور پاؤں وغیرہ کی خلقت واضح ہو چکی ہو تو ایسی صورت میں وہ نفاس کے حکم میں ہو گی۔ یعنی گویا کہ اس نے بچے کو جنم دیا ہے، لہذا نہ تو وہ نماز پڑھے گی اور نہ روزے رکھے گی۔ نیز خاوند کے  لیے  حلال بھی نہیں ہو گی، تاوقتیکہ وہ پاک نہ ہو جائے یا چالیس دن کی زیادہ سے زیادہ مدت نفاس پوری نہ کر لے۔

اگر وہ چالیس دن سے قبل پاک ہو جائے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو گا۔ بعد ازاں نماز پڑھے اور رمضان المبارک کی صورت میں روزے رکھے، خاوند کا اس سے جماع کرنا بھی جائز ہو جائے گا۔ کم از کم نفاس کی مدت غیر متعین ہے اگر عورت ولادت کے دس دن بعد یا اس سے بھی پہلے یا بعد پاک ہو جائے تو اس پر غسل کرنا واجب ہو گا اور اس پر پاک عورتوں والے احکام نافذ ہوں گے۔ اگر اسے چالیس دن کے بعد بھی خون نظر آئے تو وہ خون فاسد ہو گا۔ اس کی موجودگی میں وہ نماز ادا کرے گی، رمضان کے روزے رکھے گی اور خاوند کے  لیے  بھی حلال ہو جائے گی اور اس پر مستحاضہ عورت کی طرح ہر نماز کے وقت وضو کر کے نماز پڑھنا ضروری ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کو جبکہ وہ مستحاضہ تھی، فرمایا:

(تَوَضَّئي لوقت  كُلِّ صلاةٍ)    (صحیح البخاری)

’’ ہر نماز کے وقت وضو کیا کر ۔‘‘

چالیس دن کے بعد آنے والا خون اگر حیض کے خون کے ساتھ آ رہا ہو تو وہ حیض کا خون سمجھا جائے گا، اور اس پر حائضہ عورت کے احکام نافذ ہوں گے۔ لہذا وہ نماز نہیں پڑھے گی، روزے نہیں رکھے گی اور نہ خاوند کے  لیے  حلال ہو گی، تاوقتیکہ وہ پاک نہ ہو جائے۔

یہ سب کچھ اس صورت میں ہے جب اس نے تام الخلقت (مکمل بناوٹ والے) حمل کو ساقط کیا ہو اور اگر ساقط شدہ حمل ایسا ہو کہ اس میں انسانی خلقت غیر واضح ہو، مثلا وہ خون کا ایک لوتھڑا  ہو اور اس میں انسانی خدوخال نمایاں نہ ہوں، تو اس صورت میں اس کا حکم مستحاضہ عورت والا ہو گا، نفاس یا حیض والا نہیں۔

لہذا اس کے  لیے  ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کے  لیے  وضو کرے۔ اس پر نماز پڑھنا اور رمضان کے روزے رکھنا واجب ہو گا۔ وہ خاوند کے  لیے  بھی مکمل طور پر حلال رہے گی۔ وہ  ہر نماز کے  لیے  وضو کرے گی اور پاک ہونے تک مستحاضہ عورت کی طرح روئی وغیرہ سے خون سے تحفظ کی کوشش کرے گی۔ ایسی عورت اگر چاہے تو ظہر اور عصر، اسی طرح مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح اس کے  لیے  ہر دو نمازوں اور نماز فجر کے  لیے  غسل کرنا بھی مشروع ہے۔ اس کی تائید حمنہ بنت حجش رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ نیز اس  لیے  بھی کہ وہ علماء کے نزدیک مستحاضہ عورت کے حکم میں ہے۔ والله ولى التوفيق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

طہارت،صفحہ:92

محدث فتویٰ

تبصرے