السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا یہ جائز ہے کہ ایک شخص کسی ایکس چینجر کے پاس جائے کہ جو سود کا معاملہ نہیں کرتا ۔اسے سوریال دے کہ وہ اسے صرف چیک دے دے قاہرہ کے لیے مصری کرنسی کا؟تو کیا اس میں یہ شرط ہے کہ ہاتھ وہاتھ ہوجیسا کہ حدیث میں آ تا ہے۔یہ بات بھی معلوم ہے کہ قاہرہ میں یہ پیسے جس ذریعہ سے حاصل ہوں گے اس کی بنیاد بھی سود پر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ان کاغذی نوٹوں کی کوئی قیمت نہیں ہے بلکہ ان کے بدلے میں جو سوناجمع ہے،اس کی قیمت سے ہر ملک اپنا اپنا سونا جو جمع کرواتی ہے عالمی بینک میں۔تو اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی ہم یہ کاغذی نوٹوں کا تبادلہ کریں تو ذہن میں یہ رکھیں یہ سود نہیں ہے بلکہ درحقیقت ہم سونے کے بدلہ میں سونا خریدتے ہیں۔اس بنا پر کہ جو سوال میں مذکور ہے ضروری ہے کہ ہاتھ وہاتھ ہو اور برابرہو۔
میں یہ سمجھتاہوں اس طرح سے یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔مگرسخت مجبوری کی صورت میں۔اس وقت بھی انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ سمجھے کہ ان کاغذوں کی کوئی ذاتی قیمت نہیں ہے۔بلکہ ان کی قیمت اعتباری ہے۔پھر جس طرح کہ آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک کی کرنسی اونچی ہوتی ہے اور بعض ممالک کی کرنسی گری ہوئی ہوتی ہے تو اس طرح کی کرنسی کاتبادلہ کرتے وقت یہ معاملہ جوئے کہ مشابہ ہوجاتا ہے۔تو میں اس سوال کاجواب یہ سمجھتے ہوں کہ اسے تبدیل کرنا جائز نہیں ہے ۔اس لیے کہ لائق ہے کہ دیتے لیتے وقت ہاتھ وہاتھ لے اور دے کیونکہ اس کا اصل سونا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب