سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) گاؤں میں جمعہ ادا کرنا کیسا ہے؟

  • 21864
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 793

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گاؤں میں جمعہ ادا کرنا کیسا ہے؟ بعض لوگ گاؤں میں جمعہ ادا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ وضاحت فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

گاؤں میں جمعہ کے نہ ہونے کی ایک د لیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ارشاد فرمایا:

"لَا جُمُعَةَ وَلَا تَشْرِيقَ إِلَّا فِي مِصْرٍ جَامِعٍ "

’’جمعہ اور عید نہیں مگر شہر میں‘‘

یہ روایت مرفوعاًتو بے اصل ہے موقوفاً صحیح ہے(الضعیفہ:917)

اس حدیث کو ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی "المحلیٰ رحمۃ اللہ علیہ  " (5/54) میں صحیح کہا ہے اور امام طحاوی  رحمۃ اللہ علیہ کا کلام بھی اسی کا متقاضی ہے لیکن انھوں نے فرمایا:

’ہ بات سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنی رائے سے ارشاد نہیں فرمائی کیونکہ اس جیسی بات رائے و عقل سے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موافقت سے ہی کہی جا سکتی ہے۔‘‘

لیکن اس میں کلام ہے اس لیے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ اس میں رائے اور اجتہاد کا دخل ہے۔ اسی لیے تو اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔

اور سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اس کے خلاف صحیح ثابت ہے۔ تو کیا یہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ یہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی موافقت سے ہی کہی گئی ہے۔ یہ بھی درست ہے؟

امام ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے:

"باب من كان يرى الجمعة في القرى وغيرها"

میں ابو رافع عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے نقل روایت کی ہے کہ انھوں نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف جمعہ کے متعلق خط لکھ کر سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:

"جَمِّعُوا حَيْثُ كُنْتُمْ"  "تم جہاں بھی ہو جمعہ ادا کرو۔"

قلت:اس کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ ابو رافع کا نام نفیع بن رافع الصائف المدنی ہے۔اور اس اثر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو ضعیف قراردینے کے لیے دلیل بنایا ہے اور یہ الفاظ زائد بیان کیے کہ:

"اور پہلا جمعہ مدینہ میں ادا کیا گیا جمعہ سیدنا مصعب بن عمیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے پڑھایا اور ان کے لیے ایک بکری ذبح کی جو ان چالیس افراد کو کفایت کر گئی اور وہاں مزید احکام جاری نہیں ہوئے تھے۔"

امام اسحاق المروزی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

" میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  سے کہا:آپ کا خیال ہے۔ مرد بستی والے جمعہ ادا کریں؟ تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: جی ہاں:

امام ابن شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  نے صحیح سند کے ساتھ امام مالک  رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایا:

’’اصحاب محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  مکہ اور مدینہ کے درمیان اس وادی میں جمعہ ادا کیا کرتے تھے۔

امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے(2/316) مع الفتح ) اور امام ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  (1068)وغیرہما نے سیدنا ابن عباس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت کیا کہ انھوں نے فرمایا:

"بے شک پہلا جمعہ مدینہ میں مسجد نبوی کے بعد جواسلام میں ادا کیا گیا وہ بحرین کی ایک بستی" جوثاء " میں ادا کیا گیا۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:

’’یہ بستی قبیلہ عبدالقیس کی بستیوں میں سے تھی۔‘‘

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  اور ابو داود رحمۃ اللہ علیہ  نے اس پر باب قائم کیا:

"باب الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى"

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا:

’’اس دلیل سے ظاہر ہے کہ قبیلہ عبدالقیس نے یہ جمعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم سے ادا کیا ۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی عادت تھی کہ وہ نزول وحی کے زمانہ میں شرعی امور میں اپنی مرضی نہیں چلاتے تھے۔ اسی لیے اگر یہ کام ناجائز ہو تا تو قرآن نازل ہو جاتا۔

جیسا کہ سیدنا جابر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو سعید  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نزول قرآن کے دور میں عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ انہیں منع نہیں کیا گیا۔

قلت:سیدنا عمر رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  ،واحمد رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی یہ آثار اس یاد گار اسلامی شعائر نماز جمعہ کے ساتھ عظیم اہتمام میں سے ہیں کہ جس کے متعلق انہیں اسے ادا کرنے اس کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا۔ خواہ وہ کسی بستی گاؤں میں ہو یا اس سے بھی چھوٹی جگہ میں۔

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اثر مذکور کے علاوہ دیگر آثار نصوص شرعیہ کے عموم و اطلاق کے مطابق ہیں (جن میں) جمعہ کو چھوڑنے سے سختی سے منع کرنا جو کہ معروف ہے۔ میں یہاں ایک آیت قرآن ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا نودِىَ لِلصَّلو‌ٰةِ مِن يَومِ الجُمُعَةِ فَاسعَوا إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ وَذَرُوا البَيعَ... ﴿٩﴾... سورةالجمعة

’’اے ایمان والو! جب نماز جمعہ کے لیے جمعہ کے دن اذان دی جائے تو تجارت کو چھوڑ کر اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘

اور جمعہ کے بعد ظہر احتیاطی ادا کرنا آیت میں مذکورحکم کو پورا کرنے کے منافی ہے کہ:

﴿فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلو‌ٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ... ﴿١٠﴾... سورة الجمعة

’’اور جب نماز ادا کی جا چکے تو زمین میں پھیل کر اللہ کے فضل میں سے تلاش کرو۔‘‘

(مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف نماز جمعہ کا حکم دیا ہے ظہر احتیاطی کا نہیں) میں جب رمضان 1397ء کو برطانیہ گیا تو مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوتی کہ مسلمان لندن میں نماز جمعہ اور عید کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

اور بعض تو ان گھروں میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں جنہیں انھوں نے خرید کر یا کرائے پر لیا ہے اور وہ ان میں پانچوں نمازیں اور جمعہ ادا کرتے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر میں نے سوچا یہ لوگ بلاد کفر میں اس عظیم عبادت کی حفاظت کتنی عمدگی سے کر رہے ہیں۔

اگر یہ لوگ تعصب مذہبی کا مظاہرہ کرتے کہ ان کی اکثریت حنفی ہے تو یہ نماز جمعہ کو چھوڑ کر ظہر ادا کرتے۔ اس سے میرے یقین میں اضافہ ہو گیا کہ دائرہ اسلام کی نشرواشاعت اور اس کی حفاظت صرف کتاب و سنت کو تسلیم کرنے اور سلف صالحین کی اتباع میں ہے۔ مذہبی جمود سے دائرہ اسلام کی وسعتوں کی طرف آنے کا تقاضا کرتے ہے۔

جس کے دلائل پرانے یا قدیم نہیں ہوتے ۔ بلکہ ہر زمانے اور وقت کے عین مطابق ہیں۔(نظم الفرائد:1425۔423)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:199

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ