سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) جلسہ استراحت کا کیا حکم ہے؟

  • 21844
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 654

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جلسہ استراحت کا کیا حکم ہے؟تو جب امام جلسہ استراحت نہیں کررہا تو مقتدی اس کی مخالفت کرے گا یا جلسہ استراحت ہی نہیں کرے گا؟(فتاویٰ الامارات:10)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جلسہ استراحت سنت ہے۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"زادالمعاد" میں جلسہ استراحت کے حکم بارے میں جولکھا ہے کہ یہ سنت نہیں ہے بلکہ کسی سبب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کرتے تھے۔اس دھوکہ میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ یہ قول"صحیح بخاری " میں جو حدیث ہے یہ اس کے مخالف ہے:

ابوحمید ساعدی نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے کہا  کہ کیا میں تمھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز نہ پڑھ کردکھاؤں؟تو صحابہ  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کہنے  لگے تجھے ہم سے زیادہ پتہ نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کا۔تو انہوں نے فرمایا کیوں نہیں۔لوگوں نے کہا پڑھ کر دکھا تو وہ صحابی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز بیان کرنے لگا تو اس میں یہ بھی ہے کہ جب پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہونے لگے تو پہلے بیٹھ کر جلسہ استراحت فرمایا،پھر کھڑے ہوگئے اور اس طرح اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز کے پورے اوصاف بیان کردیے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے کہا کہ واقعتاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ  یا دوسرے سات صدیاں گزرجانے کے بعد آکر مختلف علتیں بیان کرنے لگے جبکہ ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور اس کے ساتھی جو تھے انہوں نے بذات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز دیکھی اور وہ بیان کررہے ہیں جو کہ ان لوگوں کے مقابلہ میں آپ کی نماز کو زیادہ جاننے والے ہیں۔اگر آپ نے جلسہ استراحت کیوجہ سے یا کسی اور سبب سے کیاہوتا تو یہ چیز صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  سے مخفی نہ رہتی۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ’’المجموع شرح المھذب‘‘ میں فرماتے ہیں کہ جلسہ استراحت سنت ہے'اس کی پابندی لازمی ہے۔جب امام جلسہ استراحت نہ کرے تو مقتدی کے لیے ضروری ہے کہ امام کی متابعت کرے'کیونکہ امام کی متابعت کرنانماز کے واجبات میں سے ہے۔جیسا کہ حدیث ہے:

"إنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ , فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا , وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا , وَإِذَا قَالَ : سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا : رَبَّنَا ولَكَ الْحَمْدُ , وَإِذَا صَلَّى جَالِساً فَصَلُّوا جُلُوساً أَجْمَعُونَ"

’’كہ امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو'جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو۔جب وہ سجدہ کرے تم بھی سجدہ کرو۔جب وہ کھڑا ہوکر نماز پڑھے تو تم بھی سب کھڑے ہوکر نماز پڑھو۔جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔‘‘

تو یہ حدیث بھی امام کی اقتداء کو لازم کرتی ہے۔اگرچہ وہ  امام بعض سنتوں کی ادائیگی میں کمی کرے۔تو تحقیق اسے امام نے نماز کے ارکان میں ایک رکن مقتدی کے لیے ساقط کردیا اور وہ ہے قیام۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:176

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ