السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تشہد میں جو"السلام عليك أيها النبي....."کہا جاتاہے۔کیا اس میں ان لوگوں کے لیے دلیل ہے کہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کرنے کے دعویدر ہیں؟(فتاویٰ المدینۃ:76)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں مطلق طور پر ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں بالخصوص سلفیوں کے نزدیک کوئی حجت نہیں ہے۔یہ ایک مثال ہے اور ہم اپنے آپ کو سلف کی طرف کیوں منسوب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سلفی ہیں؟یہ اس لیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مسلمان بھی بہت سارے گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا مصداق بنتے ہوئے کہا:
"... وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً ، قَالُوا : وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"
’’عنقریب میری امت کے تہتر(73) فرقے بنیں گے'ایک کے علاوہ سب جہنم میں جائیں گے'لوگوں نے کہا وہ کون سا فرقہ ہے؟اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ وہی ہے کہ جس طریق پر میں ہوں اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘
ایک اور صحیح روایت میں ہے"وَهِيَ الْجَمَاعَةُ "وہ جماعت ہے۔یہ تمام فرقے جن پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی ہونے کا حکم لگایا ہے'یہ کتاب وسنت کی روشنی میں اس آگ سے بچ نہیں سکتے،لیکن ان فرقوں کی مثال اس طرح ہے کہ جس طرح ایک عربی شاعر نے کہا ہےکہ:
"كَلٌّ يَدَّعي وَصْلاً بلَيلَى"
"ليلى لا تُقرُّ لهم بذاكا"
’’ہر ایک لیلیٰ کے وصال کا دعویٰ کرتا ہے لیکن لیلیٰ ان کے لیے اس چیز کا اقرار بھی نہیں کرتی‘‘
تو ان فرقوں میں راہ راست پر وہی فرقہ ہے کہ جو اپنی جماعت کے لیے منہج کے طور پر اس حدیث کا خیال کرتا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي"
"یعنی وہ راستہ کہ جس پر میں اور میرے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہیں۔
"ما أنا عليه"
یہ الفاظ نہیں ہے۔یعنی جس پر صرف میں ہوں۔بلکہ اس کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو بھی شامل کیا۔تو سوال یہ ہے کہ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو کیوں ملایا۔۔۔؟کیا یہ کافی نہیں تھا کہ وہ صرف سنت پر عمل کرنے کے لیے ابھارتے؟میں یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ اور خلفاء راشدین کا ذکر کرنا اگرچہ آپ پروحی نازل نہیں ہوئی تھی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کےضمن میں آجاتے ہیں:
﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورةالنساء
’’جس نے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی،اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہوچکی تھی اور مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی اور راستے کی وہ پیروی کرتا ہے۔ہم اسے پھیردیتے ہیں کہ جس طرف بھی وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور جہنم بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
ہرفرقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کتاب وسنت پرعمل پیرا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے آپس میں شدید قسم کے اختلاف بھی ہوں لیکن اس کے باوجود وہ کتاب وسنت پر عمل پیرا ہوں؟تو ان گروہوں کا آپس میں جو اختلاف ہے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس اختلاف کا سبب قرآن ہو۔تو ہروہ جماعت کے جو دعویٰ کرتی ہے کہ وہ کتاب وسنت پر عمل پیرا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے لیے کوئی شاہد پیش کرے اور شاہد نیک مومنوں کا راستہ ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب