سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) زیرِ استعمال زیورات پر زکوٰۃ کی تردید

  • 21604
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 625

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض فقہاء استعمال کے زیورات میں زکاۃ واجب ہونے کی یوں تردید کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  اور تابعین و عظام کے زمانہ میں زیورات کی زکاۃ دینا عام نہیں ہوا حالانکہ تقریباً کوئی بھی گھر زیور سے خالی نہیں ہوتا اس لیے یہ نماز کی مانند ہے یعنی جس طرح نماز کے وجوب کی اور نماز کے اوقات کی تعیین کردی گئی ہے اور جس طرح زکاۃ کے وجوب کی اور زکاۃ کے نصابوں کی تعیین کردی گئی ہے اسی طرح زیورات کے زکاۃ کی بھی وضاحت کر دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس بعض صحابہ جیسے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ سے بھی زیورات میں زکاۃ کے واجب نہ ہونے کا قول ثابت ہے۔ فقہاء کی اس دلیل کا کیا جواب ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ بھی دیگر اختلافی مسائل کی طرح ہے جس میں دلیل کا اعتبار ہوگا اور جب کوئی ایسی دلیل مل جائے جو اس نزاع کا فیصلہ کر رہی ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری ہو گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورةالنساء

’’اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ ذ‌ٰلِكُمُ اللَّهُ رَبّى عَلَيهِ تَوَكَّلتُ وَإِلَيهِ أُنيبُ ﴿١٠﴾... سورة الشورىٰ

’’اور جس بات میں تمھارا اختلاف ہو جائے تو اس کا فیصلہ اللہ کے حوالے ہے۔‘‘

جو شخص شرعی حکم جان لینے کے بعد اسے اختیار کر لے تو اہل علم کی مخالفت اسے نقصان نہیں پہنچائے گی شریعت میں یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ باصلاحیت مجتہدین میں سے جس نے درست مسئلہ تک رسائی حاصل کر لی اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔اور جس سے چوک ہو گئی اسے اجتہاد پر ایک اجر ملے گا اور درست مسئلہ تک پہنچنے کا اجر فوت ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں حاکم کے اجتہاد سے مطلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح حدیث ہے اور بقیہ مجتہد علمائے دین بھی اس سلسلے میں مجتہد حاکم کے حکم میں ہیں۔

یہ مسئلہ دیگر اختلافی مسائل کی طرح صحابہ اور ان کے بعد کے زمانہ سے ہی علماء کے درمیان مختلف فیہ رہا ہے اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ میں اور دیگر اختلافی مسائل میں بھی دلائل کے ساتھ حق کو پہنچاننے کی کوشش کریں اور جو حق تک پہنچ جائے اسے کسی مخالف کی مخالفت  نقصان   نہیں پہنچا سکتی۔ ساتھ ہی اہل علم کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوسرے عالم بھائی کے سلسلے میں حسن ظن رکھیں اور اس کے قول کو بہترین صورت پر محمول کریں بھلے ہی اس کی رائے مختلف ہو جب تک کہ اس کی جانب سے بالقصد حق کی مخالفت کی بات ظاہر نہ ہو جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:168

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ