سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) قصر کتنی مسافت پر جائز ہے؟

  • 21583
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 730

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس سفر میں قصر کرنا جائز ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا اس کی مسافت کی کوئی مقدار متعین ہے؟ اور اگر کوئی شخص اپنے سفر میں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہو تو کیا وہ قصر کی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس سفر میں قصر کرنا جائز ہے اس کی مقدار جمہور اہل علم کے نزدیک اہل علم کے نزدیک اونٹ اور پیدل کی رفتار سے ایک دن اورایک رات ہے جو تقریباً اسی کلو میٹر ہوتا ہے کیونکہ عرف عام میں کم ازکم اتنی ہی مسافت پر سفر کا اطلاق ہوتا ہے۔

جمہور اہل علم کے نزدیک اگر کوئی شخص سفر میں چار دن سے زیادہ قیام کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پر پوری نماز پڑھنا اور اگر رمضان کا مہینہ ہے تو روزہ رکھنا واجب ہے اس کے برعکس اگر قیام کی مدت اس سے کم ہے تو قصر جمع اور افطار سب اس کے لیے جائز ہیں کیونکہ مقیم کے حق میں اصل تمام (پوری نماز  پڑھنا ) ہی ہے قصر تو در حقیقت اس کے لیے اس وقت کے لیے مشروع ہے جب وہ سفر شروع کردے نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں چار دن قیام کیا اور اس دوران قصر کے ساتھ نماز پڑھتے رہے پھر منیٰ اور عرفات کی طرف روانہ ہوئے آپ کا یہ فعل واضح دلیل ہے کہ جس شخص کا ارادہ چار دن یا اس سے کم قیام کا ہو اس کے لیے قصر کرنا جائز ہے۔

رہا فتح مکہ کے سال آپ کا انیس دن اور غزوہ تبوک کے موقع پر بیس دن کا قیام اور اس دوران نماز قصر کرنا تو جمہور اہل علم کے نزدیک دین کے لیے احتیاط اور اصل حکم (یعنی مقیم کے لیے ظہر عصر اور عشاء کی چار چار رکعت کی فرضیت) پر عمل کے پیش نظر اسے اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ آپ کا ارادہ پہلے سے اتنی مدت کے لیے قیام کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے سبب کی بنا پر آپ نے قیام کیا جس کی مدت نامعلوم تھی۔

لیکن اگر کسی کا قیام کا ارادہ نہیں ہے اور اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ وہاں سے کب کوچ کرے گا تو جب تک وہ اپنے وطن واپس نہ آجائے اس کے لیے قصر جمع اور افطار سب جائز ہے بھلے ہی اس کے قیام کی مدت چار دن سے زیادہ ہو جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:140

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ