السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا امام کے لیے امامت کی نیت کرنا شرط ہے؟ اور اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور کسی شخص کو نماز پڑھتا ہوا پائے تو کیا وہ اس کے ساتھ شامل ہو جائے؟اور کیا مسبوق کی اقتدا میں نماز پڑھنا درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امامت کے لیے نیت شرط ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی ہے۔‘‘
اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہو اور اس کی جماعت چھوٹ گئی ہو اور کسی دوسرے شخص کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے پائے تو اس کے ساتھ مقتد ی بن کر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہی افضل ہے جیسا کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم ہو جانے کے بعد ایک شخص کو مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
’’کیا کوئی شخص ہے جو اس پر صدقہ کرے اور اس کے ساتھ نماز پڑھے۔‘‘
ایسا کرنے سے دونوں کو جماعت کی فضیلت حاصل ہو جائے گی لیکن جو نماز پڑھ چکا ہے اس کے لیے یہ نماز نفل ہو گی۔
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھتے پھر اپنی قوم کے پاس واپس جا کر انہیں دوبارہ یہی نماز پڑھاتے تھے یہ نماز ان کے لیے نفل اور لوگوں کے لیے فرض ہوتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ نے اسے برقرار رکھا۔
اسی طرح جس کی جماعت چھوٹ گئی ہو وہ جماعت کی فضیلت حاصل کرنے لیے مسبوق کی اقتدا میں نماز پڑھ سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں اور مسبوق کے سلام پھیرنے کے بعد وہ اپنی باقی نماز پوری کر لے۔ کیونکہ اس سلسلہ میں وارد حدیثیں عام ہیں۔ اور یہ حکم تمام نمازوں کو عام ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ذکر کیا کہ آخری زمانہ میں ایسے امراء و حکام ہوں گے جو نمازیں بے وقت پڑھیں گے تو انہیں حکم دیتے ہوئے فرمایا:
’’تم نماز وقت پر پڑھ لیا کرنا پھر اگر ان کے ساتھ نماز مل جائے تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ تمھارے لیے نفل ہو جائے گی مگر یہ نہ کہنا کہ میں نے تو نماز پڑھ لی ہے لہٰذا اب میں نہیں پڑھتا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب