سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

  • 21551
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1647

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کردعا مانگنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟اور کیا اس سلسلہ میں فرض نماز کے درمیان اور نفل نماز کے درمیان کوئی فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دعا کے وقت ہاتھوں کا اٹھانا سنت اور قبولیت کا سبب ہےنبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے:

’’تمھارا رب باحیا اور کرم نواز ہے جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے ہاتھوں کو اٹھاتا ہے تو اسے خالی واپس کرتے ہوئے اسے شرم محسوس ہوتی ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  ،ترمذی رحمۃ اللہ علیہ، ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ اورحاکم رحمۃ اللہ علیہ نے سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طریق سے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے:

ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

’’بیشک اللہ پاک ہے اور پاک چیز ہی قبول فرماتا ہے۔ اور اللہ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو دیا تھا۔‘‘

جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كُلوا مِن طَيِّبـٰتِ ما رَزَقنـٰكُم وَاشكُروا لِلَّهِ إِن كُنتُم إِيّاهُ تَعبُدونَ ﴿١٧٢﴾... سورةالبقرة

’’مومنو! تم ہماری دی ہوئی پاک روزی کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم خالص اللہ کی بندگی کرتے ہو۔‘‘

اور فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الرُّسُلُ كُلوا مِنَ الطَّيِّبـٰتِ وَاعمَلوا صـٰلِحًا إِنّى بِما تَعمَلونَ عَليمٌ ﴿٥١﴾... سورة المؤمنون

’’پیغمبر!پاک چیز کھاؤ اور اچھے عمل کرتے رہو ۔بیشک میں جو کچھ تم کرتےہواس سے باخبر ہوں۔‘‘

پھر آپ نے فرمایا:

’’ایک شخص دور دراز کا سفر کرتا ہے بال پراگندہ اور جسم غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر اے رب اےرب کہہ کر دعا کرتا ہے۔ مگر اس کی دعا کہاں سے قبول ہو جب اس کا کھانا حرام اس کا پینا حرام اس کا لباس حرام اور حرام سے اس کی پرورش ہوئی ہے۔‘‘(صحیح مسلم)

لیکن جن مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کے لیے ہاتھوں کو نہیں اٹھایا وہاں اٹھانا درست نہیں ہے جیسے پنج وقتہ فرض نمازوں کے بعد دونوں سجدوں کے درمیان سلام پھیرنے سے پہلے اور جمعہ وعیدین کا خطبہ دیتے وقت ان جگہوں پر آپ سے ہاتھ کا اٹھانا ثابت نہیں اور ہمیں کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے میں آپ ہی کی اقتدا کرنی ہو گی۔ البتہ جمعہ و عیدین کے خطبہ میں اگر استسقاء کے لیے دعا کرنا ہو تو ہاتھوں کا اٹھانا مشروع ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔

رہی بات نفل نمازوں کی، تو میرے علم میں ان کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سلسلہ میں وارد دلیلیں عام ہیں مگر افضل یہ ہے کہ اس پر مداومت نہ کی جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ چیز ثابت نہیں اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے ذریعہ یہ بات ضرورت منقول ہوتی کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے آپ کے سفر و حضر کے تمام اقوال وافعال اور احوال و اوصاف کی نقل و روایت میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔

رہی یہ حدیث جو لوگوں کے درمیان مشہور ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’نماز خشوع و تضرع اور ہاتھ اٹھا کر اے رب ،اے رب کہہ کر دعا مانگنے کا نام ہے۔‘‘

تو یہ حدیث ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن رجب وغیرہ نے اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

ارکانِ اسلام سے متعلق اہم فتاویٰ

صفحہ:104

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ