سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(117) مد، رطل، صاع اور وسق کا صحیح وزن

  • 21457
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-25
  • مشاہدات : 18109

سوال

(117) مد، رطل، صاع اور وسق کا صحیح وزن
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مد، رطل، صاع اور وسق کا صحیح وزن کیا ہے۔ نیز کیا پانچ وسق کا وزن 20 من صحیح ہے؟ (احسان اللہ فاروقی۔ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صاع ماپ کا پیمانہ ہے۔ وزن کا نہیں۔ جب اسے اوزان میں لایا جاتا ہے تو اجناس کی مختلف اقسام کی بنا پر اس میں کمی بیشی ہو جاتی ہے جس کی بنا پر اہل علم میں اس کے متعلق مختلف ہے ایک صاع میں 4 مد ہوتے ہیں اور یہ بات اہل علم کے ہاں معروف ہے کہ صاع نبوی  5لہذا ایک مد کا وزن  1 رطل ہے ایک وسق میں 60 صاع ہوتے ہیں اور 5 وسق کے 300 صاع ہوئے۔ 5 وسق کا وزن صاع کے وزن پر موقوف ہے۔

برصغیر کے عام علماء صاع کا وزن دو سیر گیارہ چھٹانک تین تولے اور چار ماشے بیان کرتے ہیں۔

مولانا عبداللہ محدث روپڑی کے فتاویٰ اہل حدیث 2/409 میں لکھا ہے کہ "صاع مدینہ کا معتبر ہے اور اس کا صحیح اندازہ پانچ رطل اور تہائی رطل ہے اور رطل کا مشہور اندازہ ادھ سیر ہے اس حساب سے صاع دو سیر پختہ انگریزی دس چھٹانک تین تولہ چار ماشے ہوتا ہے۔

جب کہ محدث گوندلوی حافظ محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایک مد نو چھٹانک کے برابر اور 4 مد 36 چھٹانک کے برابر ہوئے۔ اور ایک صاع پھر سوا دو سیر ہوا۔ 5 وسق کا 16 من 35 سیر ہوا جبکہ صحیح اور اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ایک مد میں نصف کلو کے قریب گندم آتی ہے۔ اس لحاظ سے پانچ وسق 300 صاع کا وزن 600 کلو گندم یعنی 15 من کے برابر ہو گا۔

مد۔یمد۔مدا۔ کا معنی "پھیلانا" ہے۔ لغت کی مشہور کتاب "لسان العرب" 13/53 مجمع بحار الانوار 4/568 النہایہ فی غریب الحدیث والاثر 4/308 میں ہے کہ " ان اصل المد بأَن يَمُدَّ الرجل يديه فيملأَ كفيه طعاما " مد کی اصل یہ ہے کہ آدمی اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے اور ہتھیلیوں میں غلہ بھرے۔ القاموس المحیط ص 407 میں لکھا ہے:

" المد بالضم مكيال وهو رطلان أو رطل وثلث أو ملء كف الانسان" المعتدل إذا ملأهما ومد يده بهما ، وبه سمى مداً . وقد جربت ذلك فوجدته صحيحاً "

مد ضمہ (پیش) کے ساتھ پیمائش کا پیمانہ اور وہ دو رطل (اہل عراق اور ابو حنیفہ کے نزدیک) یا رطل (اہل حجاز کے ہاں) یا درمیانے انسان کی دونوں ہتھیلیاں ہیں جب وہ ان دونوں کو بھر لے اور ہتھیلیاں پھیلا دے۔ اسی وجہ سے اسے مد کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کا تجربہ کیا اور اسے صحیح پایا ہے۔

اور ص 955 میں لکھا ہے کہ:

"الصاع اربعة امداد كل مد رطل وثلث قال الداوودى: معياره الذى لا يختلف: اربع حفنات بكفى الرجل الذى ليس بعظيم الكفين ولا صغيرهما، اذ ليس كل مكان يوجد فيه صاع النبى صلى الله عليه وسلم انتهى وجربت ذلك فوجدته صحيحا"

ایک صاع کے چار مد ہوتے ہیں۔ ہر ایک مد  1رطل ہوتا ہے۔ (ایک صاع   5 رطل ہوتا ہے)

داودی نے کہا ہے: اس کا معیار جو مختلف نہیں ہوتا ایسے آدمی کے دونوں ہاتھوں کی چار لپیں ہیں جس کی ہتھیلیاں نہ بڑی ہوں اور نہ چھوٹی۔ اس لئے کہ ہر جگہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاع نہیں پایا جاتا۔ علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس فرماتے ہیں۔ میں نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اسے صحیح پایا ہے یعنی ایسی چار لپیں رطل کے برابر ہوتی ہیں امام نووی فرماتے ہیں:

" وقال جماعة من العلماء: الصاع اربع حفنات بكفى رجل معتدل الكفين "

"علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ ایک صاع میں درمیانی ہتھیلیوں والے آدمی کی چار لپیں ہوتی ہیں۔"

(المجموع 6/129) نیز دیکھیں مغنی المحتاج 1/328 المصباح المنیر 1/415 الایضاح والتبیان فی معرفۃ المکیال والمیزان ص 57،58 بحوالہ التعلیق علی کتاب الزکاۃ للبغوی ص 223)

مذکورہ بالا حوالات سے معلوم ہوا کہ ایک صاع میں درمیانی ہتھیلیوں والے آدمی کی چار لپیں ہوتی ہیں۔ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں "اسلام دین فطرت ہے اور اس کے مقرر کردہ پیمانے بھی سادہ اور فطری ہیں۔ سعودی عرب کے مشہور مفتی شیخ عبدالعزیز بن باز اور اور ان کے ساتھی ھئیۃ کبار العلماء کے اراکین نے بھی یہی فرمایا ہے کہ صدقہ فطر ادا کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ معتدل ہاتھوں والا آدمی دونوں ہاتھوں کی لپیں چار دفعہ بھر کر دے۔

یہ مقدار ہمارے تجربہ کے مطابق گندم میں سے دو کلو ہے۔ ہر شخص خود بھی تجربہ کر سکتا ہے "احکام زکوۃ و عشر ص 53 مفتی عبدالرحمان الرحمانی کے رسالہ "المیزان فی الاوزان" میں بھی یہی بات موجود ہے۔ لہذا انہوں نے جو اپنی کتاب "مسائل عشر پر تحقیقی نظر ص ص 11،12 میں پانچ وسق کا وزن 20 من کے برابر تقریبا قرار دیا ہے درست نہیں۔ صحیح اور درست 15 من وزن پانچ وسق کا بنتا ہے۔ واللہ اعلم

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الجامع-صفحہ565

محدث فتویٰ

تبصرے