سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(102) نومولود کے کان میں اذان اور اقامت

  • 21442
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 1595

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب مسلمانوں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہتے ہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صحیح حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

راقم الحروف کے علم کی حد تک اس کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں اس سلسلہ میں جو تین روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل استناد نہیں ایک روایت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

" رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن فى اذن الحسن بن على حين ولدته فاطمة بالصلاة "

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان کہی جب انہیں فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم دیا۔"

(ترمذی، ابواب الاضاحی (1514) ابوداؤد (5105) مسند احمد 6/9،39،392 شعب الایمان (8617،8618) مستدرک حاکم 3/179 بیہقی 9/305)

اس روایت کی سند میں عاصم بن عبیداللہ اصل راوی ہے جس کے ضعف پر تقریبا تمام محدثین متفق ہیں۔ حافظ ابن حجر التلخیص الحبیر کتاب العقیقہ رقم (1985) 4/367ط جدید میں رقمطراز ہیں:

" ومداره على عاصم بن عبيدالله وهو ضعيف "

اس روایت کا دارومدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف راوی ہے عاصم پر کلام کے لیے دیکھیں: (تھذیب التھذیب 3/35،36)

بعض اہل علم نے اس روایت کی تقویت کے لیے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت پیش کی ہے کہ:

" ان النبى صلى الله عليه وسلم أذن فى اذن الحسن بن على يوم ولد و اقام فى اذنه اليسرى "

"بےشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے کان میں ان کی ولادت کے دن اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔"

(سلسلۃ ضعیفہ 1/331 ارواء الغلیل 4/401)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت کا شاھد ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔

نوٹ: سلسلہ ضعیفہ میں اس روایت کے یہ الفاظ طبع ہونے سے رہ گئے ہیں:

" فأذن فى أذنه اليمنى "

"آپ نے حسن رضی اللہ عنہ کے دائیں کان میں اذان کہی۔"

امام بیہقی نے اگرچہ اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ ضعیف کی بجائے موضوع ہے کیونکہ اس میں محمد بن یونس الکدیمی ہے جس کے بارے امام ابن عدی فرماتے ہیں:

" قد اتهم الكديمى بالوضع "

یہ روایات گھڑنے کے ساتھ متہم ہے امام ابن حبان فرماتے ہیں اس نے ہزار سے زائد روایات گھڑی ہیں اسی طرح موسیٰ بن ھارون اور قاسم المطرز نے بھی اس کی تکذیب کی ہے۔ (میزان 4/74)

امام دارقطنی نے بھی اسے روایت گھڑنے کی تہمت دی ہے لہذا یہ روایت موجوع ہونے کی وجہ سے شاھد بننے کے قابل نہیں اسی طرح اس میں کدیمی کا استاذ اور استاذ الاستاذ بھی ضعیف ہے۔

اسی طرح حسین بن علی رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت کہ:

" من ولد له مولود , فأذن في أذنه اليمنى , وأقام في أذنه اليسرى , لم تضره أم الصبيان "

"جس کے ہاں بچہ پیدا ہو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ام الصبیان (بیماری ہے) تکلیف نہیں دے گی۔"(شعب الایمان 8619)

اس کی سند میں یحییٰ بن العلاء الرازی کذاب راوی ہے لہذا بچے کے کان میں اذان اور اقامت والی روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں۔ واللہ اعلم

(2) نومولود کے کان میں اذان اور اقامت

جواب: نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کے بارے میں راقم الحروف نے مجلہ الدعوہ ربیع الثانی 1423ھ بمطابق جون 2002ء ص 58 میں لکھا تھا کہ "راقم الحروف کے علم کی حد تک اس کے بارے کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود نہیں اس سلسلہ میں جو تین روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل استناد نہیں" پھر اس کے بعد ان روایات ثلاثہ کا مختصر سا تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ اس کے متعلق ہمارے واجب الاحترام محقق العصر فضیلۃ الشیخ حافظ محمد ایوب صابر حفظہ اللہ نے ماہنامہ "دعوت اہل حدیث" جمادی الاولیٰ 1423ھ میں لکھا کہ "نومولود کے کان میں اذان کہنا مسنون اور معمول بہا ہے اور روایۃ و درایۃ، نقلا و عقلا کوئی دلیل اور وجہ ایسی نہیں جس کے باعث اسے امر منکر تصور کیا جائے۔"

محترم حافظ صاحب کا اسے مسنون قرار دینا کسی طرح بھی درست نہیں کیونکہ اس عمل کی مسنونیت پر کوئی پختہ اور قابل استناد روایت موجود نہیں نہ ہی روایۃ، اور نقلا یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے اور درایۃ و عقلا اس میں کوئی وزن نہیں۔ ہم ان روایات پر تبصرہ کرتے ہیں اور انہیں حسن بنانے کے لیے جو دلائل "دعوت اہل حدیث" میں طبع ہوئے ہیں ان کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔

پہلی مرفوع روایت

ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

(رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن فى اذن الحسن بن على حين ولدته فاطمة بالصلاة)

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں نماز والی اذان کہی۔

(ترمذی (1514) ابوداؤد (5105) مسند احمد 6/9،391،392 شعب الایمان بیہقی (8617) المستدرک للحاکم 3/179 بیہقی 9/305 عبدالرزاق (8016) 4/259ط جدید) شرح السنۃ 11/373 (2822) المعجم الکبیر للطبرانی 1/315- 3/18-19)

اس روایت کا دارومدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

" ومداره على عاصم بن عبيدالله وهو ضعيف "

(التلخیص الحبیر 4/367 (1985)

اس روایت کا دارومدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف ہے۔

اسی طرح علامہ ابن ترکمانی نے بھی "الجوھر النقی" 9/305 میں رقم کیا ہے کہ:

" فى سنده عاصم بن عبيدالله سكت عنه البيهقى هنا وهو ضعيف عندهم وقد ضعفه البيهقى ايضا فى باب استبانة الخطاء "

اس کی سند میں عاصم بن عبیداللہ ہے جس کے متعلق یہاں بیہقی نے سکوت اختیار کیا ہے اور وہ محدثین کے ہاں ضعیف ہے اور بیہقی نے خود بھی اسے " باب استبانة الخطاء " میں ضعیف قرار دیا ہے۔

اس راوی کے متعلق:

امام عبدالرحمٰن بن مہدی اس کی روایت کا بڑی شدت کے ساتھ انکار کرتے تھے امام احمد بن حنبل اس کی اور ابن عقیل کی روایت کو ضعیف گردانتے تھے اور کبھی کہتے تھے کہ عاصم پختہ راوی نہیں ہے امام یحییٰ بن معین نے کہا ضعیف ہے ابن سعد نے کہا کثیر الروایۃ ہے اور قابل حجت نہیں امام ابن عیینہ نے اس کے حفظ میں طعن کیا ہے امام یعقوب بن شیبہ نے کہا لوگوں نے اس سے روایت لی ہے اور اس کی روایات میں ضعف ہے اور اس کی روایات منکر ہیں ابن نمیر کہتے ہیں عاصم اصل میں منکر الحدیث اور مضطرب الحدیث قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا اس کی کوئی روایت قابل اعتماد نہیں۔ امام بخاری نے بھی اسے منکر الحدیث کہا ہے ابن خراش اور بہت سے ائمہ نے اسے ضعیف کہا ہے امام ابن خزیمہ نے کہا میں اس کے سوء حفظ کی وجہ سے اس سے حجت نہیں پکڑتا امام دارقطنی نے اسے متروک قرار دیا ہے امام بزار نے کہا: اس کی روایت میں کمزوری ہے امام ابوداؤد نے اس کی روایت کو قابل حجت قرار نہیں دیا بلکہ یہ بھی کہا " لا يكتب حديثه " اس کی روایت کو لکھا نہیں جاتا امام ابن حبان نے کہا یہ سوء الحفظ، کثیر الوھم اور فاحش الخطاء ہے اس کو کثرت خطاء کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا ہے ساجی نے اسے مضطرب الحدیث قرار دیا ہے حافظ ابن القطان الفاسی نے اسے منکر الحدیث اور مضطرب الحدیث بتایا ہے علامہ ھیثمی نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔

(تھذیب التھذیب (3453) تاریخ کبیر للبخاری (9159) الضعفاء الصغیر للبخاری (281) الجرح والتعدیل (1917) الکاشف (2506) میزان الاعتدال (4056) تاریخ یحییٰ بن معین بروایۃ الدوری (822) الضعفاء الکبیر للعقیلی (1355) موسوعۃ اقوال الامام احمد (1263) الکامل لابن عدی 9/1866،1867 الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 2/70 قبول الاخبار و معرفۃ الرجال لابی القاسم الکعبی 2/261 کتاب المجروحین لابن حبان 2/127 بیان الوھم والایھام لابن القطان 3/358 مجمع الزوائد 3/244 علامہ ذھبی نے یہ روایت میزان میں اور ابن حبان نے المجروحین میں ذکر کی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عاصم بن عبیداللہ انتہائی ضعیف راوی ہے جسے متروک، منکر الحدیث، مضطرب الحدیث، سئی الحفظ، کثیر الوہم، فاحش الخطاء اور ناقابل حجر قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ امام بخاری جسے منکر الحدیث قرار دیں وہ انتہائی گرا ہوا راوی ہوتا ہے اس سے روایت لینا بخاری کے نزدیک حلال نہیں ہوتا امام بخاری فرماتے ہیں:

" كل من قلت فيه منكر الحديث فلا تحل الرواية عنه "

"ہر وہ آدمی جس کے متعلق میں "منکر الحدیث" کہوں اس سے روایت لینا حلال نہیں۔"

(ملاحظہ ہو میزان الاعتدال 1/6، 2/202 طبقات الشافعیہ للسبکی 2/9 فتح المغیث للسخاوی 1/400 تدریب الراوی 1/296 ظفر الامانی ص 82)

بلکہ شیخ احمد شاکر نے الباعث الحثیث 1/320 میں لکھا ہے:

" منكر الحديث فانه يريد به الكذابين "

امام بخاری منکر الحدیث سے مراد کذاب راوی لیتے ہیں لہذا جس راوی سے روایت لینا حلال نہ ہو اور تقریبا تمام جلیل القدر محدثین کے ہاں مجروح قرار پا چکا ہو اس کی روایت کس طرح صحیح یا حسن اور قابل حجت ہو سکتی ہے جب کہ اس کا کوئی متابع اور قوی شاھد بھی موجود نہیں۔

امام عجلی کی توثیق

محترم ایوب صاحب نے عاصم کی روایت کو حسن قرار دینے کے لیے امام عجلی کی جو توثیق پیش کی ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں، اولا: جمہور ائمہ محدثین نے اس پر جرح مفسر کر دی ہے ان کے مقابلہ میں اکیلے عجلی کی توثیق قابل حجت نہیں، ثانیا: علامہ البانی کے ہاں عجلی متساھل ہیں فرماتے ہیں:

وعاصم بن عبيد الله اتفقوا على تضعيفه , وأحسن ما قيل فيه " لا بأس به ". قاله العجلى , وهو من المتساهلين , ولذلك جزم الحافظ فى " التقريب " بضعف عاصم هذا. وأورده الذهبى فى " الضعفاء " وقال: " ضعفه مالك وغيره ". وتعقب قول الحاكم " صحيح الإسناد " بقوله: " قلت: عاصم ضعيف ". (ارواء الغلیل 4/401)

عاصم بن عبیداللہ کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے اور سب سے بہتر جو قول اس کے بارے کہا گیا وہ " لا بأس به" ہے یہ بات عجلی نے کہی ہے اور وہ متساھلین میں سے ہے اسی لیے حافظ ابن حجر نے تقریب میں عاصم کے ضعف پر جزم کیا ہے اور امام ذھبی نے اسے ضعفاء میں لا کر کہا ہے امام مالک وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور حاکم نے جو اس کی حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے اس کا تعاقب امام ذھبی نے یہ کہہ کر کیا ہے "میں کہتا ہوں عاصم ضعیف ہے۔"

شیخ البانی کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ امام عجلی شیخ کے نزدیک متساھل ہیں اور عاصم کے ضعف پر محدثین کا اتفاق ہے اسی لیے حافظ ابن حجر عسقلانی نے (تقریب مع تحریر 1/167) میں اور امام ذھبی نے (دیوان الضعفاء 2034) المغنی فی الضعفاء 1/507) میں اسے قطعی طور پر ضعیف قرار دیا ہے امام عجلی کو متساھل قرار دینے میں علامہ البانی نے شاید علامہ عبدالرحمٰن یمانی کی پیروی کی ہے۔ واللہ اعلم

امام ابن عدی کا قول

رہا امام ابن عدی کا قول:

" وهو مع ضعفه يكتب حديثه "

"ضعف کے باوجود اس کی روایت لکھی جاتی ہے۔"

اولا: اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عاصم ابن عدی کے ہاں بھی ضعیف ہے۔

ثانیا: ابن عدی کا قول " يكتب حديثه " امام ابوداؤد کے قول " لا يكتب حديث " کے معارض ہے

ثالثا: اس کی روایت لکھی جانے کا مفہوم یہ ہے کہ معرفت اور پہچان  کے لیے اسے لکھ لیا جاتا ہے جس طرح امام بغوی نے مروان بن سالم کے بارے کہا ہے:

" منكر الحديث لا يحتج برواية ولا يكتب اهل العلم حديثه الا للمعرفة " (تھذیب)

مروان منکر الحدیث ہے اس کی روایت سے حجت نہیں پکڑی جاتی اور اہل علم اس کی حدیث صرف معرفت و پہچان کے لیے لکھتے ہیں لہذا عاصم جب منکر الحدیث اور ناقابل حجت ہے تو اس کی روایت متابعات و شواھد کی بجائے صرف پہچان کے لیے لکھ لی جاتی ہے۔

رابعا: اگر متابعات و شواھد میں اس کی روایت کو لکھا جاتا ہو تو نومولود کے کان میں اذان کہنے کے متعلق تو کوئی اصل روایت ہے ہی نہیں جس کے لیے اس کی روایت کو شاہد بنایا جائے یا اس کو کسی کا متابع قرار دیا جائے جو شواھد اس کے لیے پیش کیے جاتے ہیں وہ موضوع ہیں جیسا کہ تفصیل آگے آ رہی ہے۔

خامسا: امام بخاری کے نزدیک اس سے روایت لینا حلال نہیں اور امام دارقطنی نے اسے متروک قرار دیا ہے اور متروک راوی کے متعلق قاعدہ یہ ہے

" واذا قالوا: متروك الحديث أو واهية او كذاب فهو ساقط لا يكتب حديثه "

(تقریب النواوی مع تدریب 1/295)

جب محدثین کسی راوی کو متروک الحدیث یا واھی یا کذاب قرار دیں تو وہ ساقط ہو جاتا ہے اس کی روایت لکھی نہیں جاتی اور علامہ سیوطی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

" ولا يعتبر به ولا يستشهد "

نہ اس کا اعتبار کیا جاتا ہے اور نہ بطور استشھاد اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔

(تدریب الراوی 1/295 نیز ملاحظہ ہو مقدمہ ابن الصلاح مع التقید والایضاح ص 135 الشذا الفیاح ص 177 وغیرہما) لہذا عاصم کی روایت کو بطور شاھد بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔

امام حاکم اور امام ترمذی کی تصحیح

یہ بات کسی بھی اہل علم اور ذی شعور پر مخفی نہیں کہ امام حاکم اور امام ترمذی دونوں کسی روایت پر تصحیح یا تحسین کا حکم لگانے میں متساھل ہیں جس پر کئی ایک کبار اہل حدیث علماء بارہا دفعہ تنبیہ کر چکے ہیں اور حنفی علماء نے بھی یہ بات تسلیم کی ہوئی ہے جیسا کہ احسن الکلام اور احکام شریعت از احمد رضا میں موجود ہے میں اس مقام پر صرف امام ذھبی کے اقوال پر اکتفاء کرتا ہوں۔

امام حاکم نے المستدرک میں نومولود کے کان میں اذان والی عاصم کی روایت کو صحیح الاسناد قرار دیا تو امام ذھبی نے کہا: " عاصم ضعيف " میں کہتا ہوں عاصم ضعیف ہے اسی طرح تذکرۃ الحفاظ 3/164 میں رقمطراز ہیں:

" ولا ريب ان فى المستدرك احاديث كثيرة ليست على شرط الصحة بل فيه احاديث موصوعة "

بلاشبک و شبہ مستدرک حاکم میں بہت ساری روایات صحت کی شرط پر پوری نہیں اترتیں بلکہ اس میں موضوع روایات بھی موجود ہیں میزان الاعتدال 3/407 میں کثیر بن عبداللہ المزنی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

" لا يعتمد العلماء على تصحيح الترمذي "

علماء امام ترمذی کی تصحیح پر اعتماد نہیں کرتے محمد بن الحسن الھمدانی الکوفی کے حالات میں لکھتے ہیں:

" حسنه الترمذى فلم يحسن " (میزان الاعتدال 3/515)

اسے ترمذی نے حسن قرار دیا ہے اور اچھا نہیں کیا۔

اور یحییٰ بن یمان العجلی الکوفی کے حالات میں لکھتے ہیں:

" حسنه الترمذى مع ضعف ثلاثة فيه فلا يغتر بتحسين الترمذى "

اس کی روایت کو ترمذی نے حسن کہا باوجود اس کے اس میں تین ضعیف راوی ہیں پس ترمذی کی تحسین سے دھوکا نہ کھایا جائے۔

سکوت ابی داؤد

محترم ایوب صاحب نے ابو رافع سے مروی روایت کو حسن بنانے کے لیے سکوت ابی داؤد کو بھی بطور دلیل ذکر کیا ہے حالانکہ حدیث کے ابتدائی طالب علم بھی جاتے ہیں کہ کسی روایت پر ابوداؤد کا سکوت اس کے حجت ہونے کی دلیل نہیں جب تک ابوداؤد کی روایت کو چھان بین کر کے دیکھا نہ جائے اتنی دیر تک تصحیح و تحسین اور تضعیف کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ مجرد سکوت ابی داؤد حجت نہیں حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

" فالصواب عدم الاعتماد على مجرد سكوته لما وصفنا انه يحتج بالأحاديث الضعيفة "

درست بات یہ ہے کہ ابوداؤد کے مجرد سکوت پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ ہم نے بیان کر دیا ہے کہ ابوداؤد روایات ضعیفہ سے بھی حجت پکڑتے ہیں۔(النکت علی ابن الصلاح 1/443)

حافظ ابن حجر ععسقلانی نے النکت میں کئی ایک مثالیں ذکر کی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابوداؤد ضعیف اور متروک راویوں کی روایات پر بھی بسا اوقات سکوت کر جاتے ہیں بلکہ کئی ایسے راوی بھی ہیں جنہیں خود ابوداؤد نے بھی ضعیف قرار دیا ہوتا ہے۔

لہذا عاصم بن عبیداللہ کی یہ روایت انتہائی ضعیف ہے کسی طرح بھی قابل حجت نہیں امام ابن القطان الفاسی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے فرماتے ہیں:

" وذكر من طريق ابى داؤد عن ابى رافع قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وسكت عنه وانما يرويه عنده عاصم بن عبيدالله عن عبيدالله بن ابى رافع عن ابى رافع و عاصم هو العمرى ضعيف الحديث منكره، مضطربه "

(بیان الوھم ولایھام 4/594)

دوسری روایت

عاصم بن عبیداللہ کی روایت کو حسن بنانے کے لیے بطور شاہد حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی پیش کیا جاتا ہے کہ:

" قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "من ولد له مولود فأذن فى أذنه اليمنى واقام فى اذنه اليسرى" الحديث " الحدیث

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ہاں بچہ پیدا ہوا اس نے اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی تو اسے ام الصبیان (بیماری) تکلیف نہیں دے گی۔

(شعب الایمان للبیہقی 6/390 (8619) عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (624) مسند ابی یعلی 12/150 (6780) میزان الاعتدال 4/397 الکامل لابن عدی 7/2656 تاریخ دمشق 57/281 مجمع الزوائد (6206) اتحاف الخیرۃ المھرۃ (6543) الامالی لابن بشران 211/490 بحوالہ عجالۃ الراغب المتمنی از سلیم ھلالی حفظہ اللہ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ (321)

یہ روایت موضوع ہے اس کی سند میں تین خرابیاں ہیں:

1۔ یحییٰ بن العلاء البجلی الرازی:

امام ابو حاتم اس کے متعلق فرماتے ہیں " ليس قوى " امام دارقطنی نے کہا " متروك " امام احمد بن حنبل نے کہا: " كذاب يضع الحديث " کذاب ہے حدیث وضع کرتا ہے امام یحییٰ بن معین نے کہا " ليس بثقه " ثقہ نہیں ہے عمرو بن علی اور نسائی نے متروک الحدیث کہا۔ امام جوزجانی نے کہا: " غير منقح، شيخ واهى "۔ امام ابو زرعہ، امام ابوداؤد اور امام وکیع نے کہا " كان يكذب " جھوٹ بولتا ہے امام ابن حبان نے کہا:

" ينفرد عن الثقات بالمقلوبات لا يجوز الاحتجاج به "

"ثقہ راویوں سے مقلوب روایات بیان کرنے میں منفرد ہے اس سے احتجاج کرنا جائز نہیں۔"

امام ابن عدی فرماتے ہیں:

" الضعف على رواياته وحديثه بين، وأحاديثه موضوعات "

اس کی روایات اور حدیث میں ضعف واضح ہے اور اس کی روایات موضوع ہیں ساجی نے اسے "منکر الحدیث" اور دولابی نے "متروک فی الحدیث" کہا ہے۔

(تھذیب التھذٰب 6/166'167 میزان الاعتدال 4/297 المغنی فی الضعفاء 2/525 کتاب المعرفۃ والتاریخ 3/141 احوال الرجال (371)

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں " رمى بالوضع "تقریب مع تحریر 4/97)

لہذا یہ راوی متروک، کذاب اور وضاع ہے اور اس کی وجہ سے یہ روایت موضوع ہے۔

2۔ مروان بن سالم:

یحییٰ بن العلاء کا استاذ مروان بن سالم بھی اسی طرح کذاب وضاع ہے امام احمد نے کہا: " ليس بثقه " یہ ثقہ نہیں امام عقیلی اور امام نسائی نے بھی اسے غیر ثقہ قرار دیا ہے بلکہ نسائی نے اسے متروک الحدیث بھی قرار دیا ہے امام بخاری اور امام مسلم نے اسے منکر الحدیث کہا ہے امام ابو حاتم نے کہا:

" منكر الحديث جدا ضعيف الحديث ليس له حديث قائم "

ابو عروبہ الحرانی نے کہا:

" كان يضع الحديث "

امام ابو احمد الحاکم نے کہا:

" حديثه ليس بالقائم "

ابن عدی نے کہا:

" عامة حديثه لا يتابعه عليه الثقات "

امام دارقطنی نے کہا:

" متروك الحديث "

ابن حبان نے کہا:

" يروي المناكير عن المشاهير، ويأتى عن الثقات ما ليس من حديث الأثبات فلما كثر ذلك فى روايته بطل الاحتجاج بأخباره "

ساجی نے کہا:

" كذاب يضع الحديث "

امام بغوی نے کہا:

" منكر الحديث لا يحتج برواية ولا يكتب اهل العلم حديثه الا للمعرفة "

امام ابو نعیم نے کہا:

" منكر الحديث "

(تھذیب 5/406 میزان الاعتدال 4/90 المغنی فی الضعفاء 2/397 کتاب المجروحین لابن حبان 3/13)

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

" متروك ورماه الساجى وغيره بالوضع " (تقریب مع تحریر 3/363)

لہذا مروان بن سالم متروک وضاع اور کذاب راوی ہے۔

3۔ طلحہ بن عبیداللہ العقیلی:

مروان کا استاذ طلحہ العقیلی مجہول ہے۔ (تقریب مع تحریر: 2/160)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس روایت میں دو راوی کذاب وضاع اور ایک مجہول ہے لہذا یہ روایت شاہد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

اشکال:

محترم ایوب صاحب لکھتے ہیں: دوسری حدیث سندا سخت ضعیف ہے البتہ مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے باعث ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو قوی قرار دیا ہے۔

(ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی 5/107)

ازالہ:

محترم ایوب صاحب کے ہاں جب یہ روایت سندا سخت ضعیف ہے تو مولانا مبارکپوری کا حوالہ انہیں مفید نہیں کیونکہ ضعف شدید والی روایت شاھد بننے کے لائق نہیں ہوتی علامہ البانی صاحب تحفۃ الاحوذی کے بارے میں رقمطراز ہیں:

" فتأمل كيف قوَّى الضعيف بالموضوع، وما ذلك إلا لعدم علمه بوضعه،واغتراره بإيراده من ذكرنا من العلماء "

(سلسلہ ضعیفہ 1/331)

غور کیجئے کہ علامہ مبارکپوری نے موضوع روایت کے ذریعے ضعیف کو کیسے قوی قرار دے دیا اور یہ صرف اس وجہ سے ہوا کہ انہیں اس کے موضوع ہونے کا علم نہیں ہو سکا اور جن علماء کا ہم نے ذکر کیا ہے انہوں نے اسے اور دو اذکار کی کتب میں ذکر کیا جس سے علامہ مبارکپوری دھوکا کھا گئے۔

علامہ البانی نے اس سے قبل امام نووی رحمۃ اللہ علیہ، ابن علان رحمۃ اللہ علیہ، ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ پر اس روایت کے وضع کا مخفی ہونا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جس روایت میں ضعف شدید ہو وہ شاھد بننے کے قابل نہیں ہوتی لہذا جب یہ روایت موضوع ہے تو اس کے ذریعے ضعیف کیسے قوی ہو جاتی ہے۔

تیسری روایت:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" ان النبى صلى الله عليه وسلم أذن فى اذن الحسن بن على يوم ولد في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى "

(شعب الایمان للبیہقی 6/390 (8620)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی ولادت والے دن ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی۔

یہ روایت بھی موضوع ہے اس میں تین خرابیاں ہیں۔

1۔ محمد بن یونس الکدیمی:

امام ابوداؤد نے اس کے کذب کا اظہار کیا ہے اور موسیٰ بن ھارون لوگوں کو کدیمی سے سماع کرنے سے روکتے تھے اور کہتے تھے:

" تقرب الى بالكذب "

"یہ میرے نزدیک جھوٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔"

امام دارقطنی کہتے ہیں:

" كان الكديمى يتهم بوضع الحديث "

"کدیمی روایت گھڑنے کے ساتھ مہتم ہے۔" مزید کہتے ہیں: " ما احسن القول فيه الا من لم يخبر له " اس کے متعلق اچھا قول اسی نے کہا ہے جو اس کے حالات سے باخبر نہیں۔"

امام ابن حبان نے فرمایا:

" كان يضع الحديث لعله قد وضع الى الثقات اكثر من الف حديث "

"یہ روایت گھڑتا تھا اس نے ثقہ راویوں پر ہزار سے زائد حدیثیں گھڑی ہیں۔"

امام ابن عدی نے کہا:

" قداتهم بالوضع و ادعى الرواية عمن لم يرهم ترك عامة مشائخنا الرواية عنه "

"یہ وضع روایات کے ساتھ مہتم ہے اور ایسے لوگوں سے روایت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے جنہیں اس نے دیکھا تک نہیں۔"

ہمارے عام مشائخ نے اس سے روایت کرنا ترک کر دیا ہے۔

امام ابو احمد الحاکم نے کہا:

" ذاهب الحديث "

علامہ ناصر الدین نے کہا:

" انه احد المتروكين "

اور قاسم بن زکریا نے اس کی تکذیب کی ہے۔

(تھذیب 5/346-347 الکامل لابن عدی 6/2294 سؤالات حمزہ السھمی للدارقطنی 112-2770 الضعفاء والمتروکین للدارقطنی (487) کتاب المجروحین لابن حبان 2/312 تذکرۃ الحفاظ 2/144-145 سیر اعلام النبلاء 13/304 الجرح والتعدیل 8/122 تاریخ بغداد 3/435-445 شذرات الذھب 2/194)

امام ذھبی فرماتے ہیں:

" هالك قال ابن حبان وغيره كان يضع الحديث على الثقات "

(المغنی فی الضعفاء 2/390)

"ھالک ہے ابن حبان وغیرہ نے کہا ہے یہ ثقہ راویوں پر روایات گھڑتا تھا۔"

محدثین رحمھم اللہ اجمعین کی اس توضیح سے معلوم ہوا کہ محمد بن یونس الکدیمی متروک و وضاع ہے لہذا اس کی روایت شاھد بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

2۔ الحسن بن عمرو بن سیف العبدی:

اسے امام علی بن المدینی اور امام بخاری نے کذاب اور امام ابو حاتم رازی، امام ابو احمد الحاکم اور امام مسلم نے متروک قرار دیا ہے۔

(میزان الاعتدال 1/516 تاریخ کبیر للبخاری (2536) تھذیب 1/508 کتاب الکنی والاسماء لمسلم ص 74 الجرح والتعدیل 3/26 المغنی فی الضعفاء 1/254 دیوان الضعفاء (934) الضعفاء الکبیر للعقیلی 1/236 الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 1/208)

3۔ القاسم بن مطیب:

امام ابن حبان فرماتے ہیں:

" يخطئى عمن يروى على قلة رواية فاستحق الترك كما كثر ذلك منه "

"یہ قلت روایت کے باوجود مروی عنہ سے خطا کر جاتا ہے یہ متروک ہونے کا حقدار جیسا کہ اس سے خطاء کثرت سے سرزد ہوتی ہے۔"

(کتاب المجروحین 2/213 الضعفاء والمتروکین لابن الجوزی 2/16 میزان الاعتدال 3/38 دیوان الضعفاء (3428) المغنی فی الضعفاء 2/212)

لہذا جو راوی قلیل الروایہ ہو اور زیادہ غلطیاں کرتا ہو تو وہ چھوڑ دینے کے لائق ہوتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ یہ روایت بھی مذکورہ تین علل کی بنا پر شاھد بننے کے قابل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ شعیب ارناؤط اور شیخ عادل مرشد کی تحقیق و تخریج سے جو مسند احمد کی جلد نمبر 39 طبع ہوئی ہے اس کے ص 297 پر لکھا ہے:

" وله شاهد لا يفرح به عند البيهقى (8620) من حديث ابن عباس وفى اسناده الحسن بن عمرو بن سيف السدوسى وهو متروك واتهمه على بن المدينى والبخارى بالكذب "

بیہقی کے ہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث شاھد ہے جس کے ساتھ خوش نہیں ہونا چاہیے اس کی سند میں الحسن بن عمرو بن سیف السدوسی متروک ہے اسے امام علی بن المدینی اور امام بخاری نے جھوٹ کی تہمت دی ہے۔ اسی طرح دکتور الحسین آیت سعید نے " بيان الوهم والأيهام " کی تحقیق 4/593 میں اس روایت کو منکر قرار دے کر لکھا ہے کہ:

" وقد حسن الشيخ ناصر حديث ابى رافع فى الإرواء (4/401) بشاهد ابن عباس ولا يظهر لى تحسينه به فلينظر لم حسنه؟ وهو اضعف منه لا يصلح لجبره ولا للاعتبار به "

"شیخ ناصر الدین البانی نے ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ارواء الغلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو شاھد بنا کر حسن قرار دیا ہے میرے لیے اس روایت کی تحسین ظاہر نہیں ہوئی دیکھا جائے کہ شیخ نے اس کو حسن کیوں قرار دیا ہے؟ یہ اس سے بھی زیادہ ضعیف ہے نہ اس کا نقصان پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور نہ بطور اعتبار اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔"

اسی طرح مشہور سلفی محقق شیخ ابو اسحاق الحوینی الاثری حفظہ اللہ بعض علماء سے بچے کے کان میں اذان دینے کا استحباب نقل کر کے لکھتے ہیں:

" ولكنه حديث ضعيف والاستحباب لا يثبت بالحديث الضعيف اتفاقا ومع بحثى ووكدى لم اجد له ما يقويه "

(الانشراح فی آداب النکاھ ص 96)

"لیکن ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ضعیف ہے اور استحباب بالاتفاق ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتا میں نے اپنی بحث و تمحیص میں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جو اسے تقویت دیتی ہو۔"

شیخ ابو اسحاق الحوینی نے ابن المغاربی کی "مناقب علی" (113) سے بطریق عبدالله بن عمر عن القاسم ابن حفص العمرى قال حدثنا عبدالله بن دينار عن ابن عمر مرفوعا ایک شاھد ذکر کر کے لکھا ہے:

" وسنده واه وبالجمله: فليس للحديث شاهد يقويه فيما أعلم "

"اس کی سند انتہائی کمزور ہے اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ میرے علم کے مطابق اس روایت کا کوئی ایسا شاھد نہیں جو اسے تقویت دے۔"

اشکال:

لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کے بارے محترم ایوب صاحب لکھتے ہیں:

تیسری حدیث بھی سندا ضعیف ہے لیکن علامہ البانی فرماتے ہیں:

" يمكن تقويه حديث ابى رافع بحديث ابن عباس .... الى ان قال فلعل هذا خير من اسناد حديث الحسن بحيث أنه يصلح شاهدا لحديث ابى رافع "

(سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ 1/331 رقم الحدیث 321)

"یعنی ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت ممکن ہے یہ (ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی) سند حسین رضی اللہ عنہ کی حدیث کی سند سے شاید بہتر ہے اور ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لئے شاھد کی صلاحیت رکھتی ہے۔"

ازالہ:

اولا: محترم ایوب صاحب کے لئے شیخ البانی کا یہ قول چنداں مفید نہیں کیونکہ شیخ البانی نے ابو رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث کے لیے حسین رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بطور شاھد پیش کرنے پر علامہ مبارکپوری پر جو تعاقب کیا ہے وہ خود شیخ پر وارد ہوتا ہے کیونکہ شیخ کے نزدیک بھی جو روایت انتہائی ضعیف ہو یا موضوع ہو اس سے ضعیف روایت کو تقویت نہیں ملتی اور نہ ہی وہ شاھد بننے کے قابل ہوتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا حال آپ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ اس میں دو راوی وضاع اور ایک ضعیف ہے۔

ثانیا: شیخ البانی کو اس روایت پر تحسین کا حکم لگانے میں تیقن و تثبت نہیں ہے اس لیے انہوں نے ارواء الغلیل میں " حسن ان شاءالله " اور آخر میں " رجوت هناك ان يصلح شاهدا لهذا والله اعلم " اور " لا يمكن " " فلعل " جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں وگرنہ وہ کھل کر اس کی تحسین کرتے۔

ثالثا: شیخ البانی نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا ہوا ہے فللہ الحمد۔ اس بحث و تمحیص کے دوران راقم نے جب شیخ البانی کی تحقیق شدہ کتاب کو دیکھا تو مشکوۃ المصابیح کی تحقیق ثانی میں شیخ نے اس حدیث پر امام ترمذی کی تصحیح کے ضمن میں لکھا:

" وفيه نظر بينته فى "الضعيفه" (321) و "الارواء" (1173) وملت فيه الى تحسينه والله اعلم ثم ترجع لى بعد تضعيفه فانظر "الضعيفه" (6121) (تعليق هداية الرواة 4/138)"

ترمذی کی تصحیح میں نظر ہے میں نے اس کو "سلسلہ الاحادیث الضعیفہ رقم (321) اور ارواء الغلیل رقم (1173) میں بیان کیا ہے اور میں اس کی تحسین کی طرف مائل ہو۔ واللہ اعلم

پھر اس کے بعد میرے لیے اس روایت کی تضعیف راجح ہو گئی دیکھیں سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ رقم (6121)

لہذا شیخ کے اس کلام کے بعد کسی کو ان کی سابقہ کتب کا حوالہ دینا درست نہیں ہے انہوں نے اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر لیا ہے پس شیخ البانی رحمہ اللہ الف الف مرة بعد وكل ذرة الى يوم فرة ہمارے ساتھ اس موقف پر متفق ہیں۔ فللہ الحمد

رہا اس کے بعد شیخ سعد بن عبداللہ بن عبدالعزیز آل حمید کا یہ قول:

" فان كان ضعفه يسيرا فيكون الحديث حسنا لغيره والافبقى على ضعفه "

(تحقیق علی مختصر المستدرک علی مستدرک ابی عبداللہ الحاکم لابن الملقن 4/1699)

تو اوپر ذکر کردہ بحث سے واضح ہو چکا ہے کہ اس روایت میں ضعیف یسیر نہیں بلکہ ضعف شدید ہے لہذا یہ اپنے ضعف پر باقی ہے اور شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ اس روایت کو حسن قرار دینے میں شیخ البانی کے پیرو ہیں جب شیخ البانی نے رجوع کر لیا ہے تو ان کے قول کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی بالخصوص جب کبار محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔

کسی ضعیف روایت کو علماء کے عمل سے حسن یا صحیح نہیں قرار دیا جا سکتا اگر یہ ضابطہ درست مان لیا جائے تو اہل بدعت اور گمراہ فرق کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے وہ اپنی بدعات اور عقائد مخترعہ پر اکثر ضعیف اور موضوع قسم کی روایات بیان کرتے ہیں اور ان کی تقویت کے لیے علماء کے عمل کو پیش کر دیتے ہیں جیسا کہ مفتی احمد یار خاں گجراتی نے "جاء الحق (المعروف جاء الباطل) حصہ دوم مقدمہ ص 5 میں قاعدہ نمبر 4 کے تحت لکھا ہے۔ تواتر عملی کے لیے خصوصا اھل سند سید بدیع الدین شاہ راشدی نور اللہ مرقدہ کی کتاب "حیلہ جدلی" کا مطالعہ فرمائیں۔

مذکورہ بحث سے ہمارا موقف روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ نومولود کے کان میں اذان کہنے کے بارے کوئی مرفوع صحیح حدیث موجود نہیں۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب الاداب-صفحہ494

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ