باپ جب کسی وجہ سے بیٹے کو قتل کر دے تو قصاص میں باپ کو قتل کیا جائے گا یا نہیں۔ کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ (ایک سائل: فورٹ عباس)
باپ اگر کسی وجہ سے اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو قصاص میں باپ کو قتل نہیں کیا جائے گا یہی بات جمہور فقہائے شافعیہ، حنابلہ اور حنفیہ نے کہی ہے۔ جیسا کہ: الشرح الکبیر علی متن المقنع 5/175، المھذب 2/174، بدایۃ المجتھد 2/40، بدائع الصنائع 7/235 میں مذکور ہے۔ اس کے دلائل درج ذیل ہیں:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اور تیرا پروردگار حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو اگر تیرے ہاں ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرو اور ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرو اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کے بازو پست کرو اور کہو اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔"
اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل نے والدین کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور ان کے سامنے عاجزی اور تواضع کے بازو پست کرنے کا حکم دیا ہے اور انہیں جھڑکنے اور ایسی بات کہنے سے منع کیا ہے جس سے انہیں تکلیف ہو خواہ وہ چھوٹی سی بات ہی کیوں نہ ہو۔
جب انہیں جھڑکنا اور اُف تک کہنا منع ہے تو یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ انہیں قصاص میں قتل کر دیا جائے۔ اسی طرح دیگر حسن سلوک والی آیات سے یہی بات اخذ کی گئی ہے۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنو مدلج کے ایک شخص کے پاس ایک باندی تھی۔
اس سے اس شخص کا بیٹا تھا۔ وہ اس سے خدمت لیتا تھا۔ جب لڑکا جوان ہو گیا تو ایک دن اس شخص نے اس باندی کو بلایا اور کہا اس طرح کام کرو۔ لڑکے نے کہا وہ میرے پاس نہیں آئے گی جب تک تو اسے غلام بنائے رکھے گا۔ لڑکے کے باپ نے غصے میں آ کر تلوار اس کی طرف پھینکی جس سے اس کی ٹانگ کٹ گئی اس لڑکے کا خون بہہ گیا اور وہ فوت ہو گیا تو وہ شخص اپنی قوم کے ایک گروہ کے ہمراہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا:
"اے اپنی جان کے دشمن تو وہ ہے جس نے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ باپ سے بیٹے کے بدلے قصاص نہ لیا جائے تو میں تجھے قتل کر دیتا۔ اس کی دیت لاؤ۔"
ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وہ 120 یا 130 اونٹ لایا عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں سے 100 اونٹ لے کر اس لڑکے کے وارثوں کے حوالے کر دئیے اور اس کے باپ کو چھوڑ دیا۔ (المنتقی لابن الجارود (788) بیہقی 8/38 دارقطنی 3/140-141)
یہ روایت حسن ہے علامہ البانی نے اسے مختلف طرق کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے۔ (ارواء الغلیل (2214) 269 تا 272)
یہی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے:
(ابن ماجہ (2661) باب لا یقتل والد بولدۃ، ترمذی (1401) دارقطنی 3/141،142 حلیۃ الاولیاء 4/18 بیہقی 8/39 مسند دارمی (2402) حاکم 4/369 ابن ابی شیبہ 10/43 (8700) تاریخ جرجان للسھمی ص 430)
میں موجود ہے اس کی سند میں اگرچہ اسماعیل بن مسلم المکی کمزور راوی ہے لیکن مختلف طرق اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ کی روایت مسند احمد 1/22'49 مسند عبد بن حمید (41) ترمذی (1400) میں بھی موجود ہے۔ عقلی طور پر اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ باپ بیٹے کے وجود کا سبب ہے اس لئے مناسب نہیں کہ بیٹا باپ کے فنا اور خاتمے کا سبب بنے اور دوسری بات یہ ہے کہ قصاص زجروتوبیخ کے لئے مشروع کیا گیا ہے۔ یہاں پر بیٹے کے قتل کی وجہ سے باپ کو زجر کی حاجت نہیں اس لئے کہ والدین کی اولاد کے بارے میں شفقت و رافت معروف ہے اور یہ شفقت انہیں ظلم و عدوان کے ساتھ قتل کرنے سے مانع ہوتی ہے۔ (عوبۃ الاعدام: ص 195)
پس معلوم ہوا کہ والد کو بیٹے کے بدلے قتل نہ کیا جائے بعض اہل علم قصاص کی عمومی آیات اور احادیث سے استدلال کرتے ہوئے باپ کو قصاص میں قتل کرنے کے قائل ہیں لیکن مختار قول وہی ہے جو ہم نے اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے تفصیل کے لئے:
(عوبۃ الاعدام للشیخ محمد بن سعد جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ اور القصاص فی النفس للدکتور عبداللہ العلی استاذ جامعۃ الامام محمد بن سعود) ملاحظہ ہوں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب