سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) گھر سے دو سال باہر رہنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے

  • 21409
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 895

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شادی شدہ آدمی کا بیرون ملک رہنا عرصہ 2 سال، کیا اس کا نکاح باقی رہتا ہے یا نہیں یا دوبارہ نکاح کرنا چاہیے حدیث سے ترجمانی کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شادی شدہ آدمی کا نکاح اس وقت ٹوٹتا ہے یا رشتہ ازدواج ختم ہوتا ہے جب وہ اپنی اہلیہ کو طلق دے ڈالے اور رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزر جائے یا عورت خلع لے لے یا دونوں میں سے کوئی ایک مرتد ہو جائے اور دین اسلام سے خارج ہو جائے۔ بصورت دیگر نکاح قائم رہتا ہے، شوہر بیوی سے خواہ کتنا عرصہ دور رہے۔ اور اگر مرد عورت کے نزدیک جانے سے قسم کھا لے جسے شریعت میں ایلاء کہتے ہیں تو اگر یہ قسم چار ماہ سے کم مدت کی ہے تو اس کی حیثیت عام قسم کی ہے۔ اگر مدت پوری ہونے سے پہلے ہم بستری کر لیتا ہے تو قسم کا کفارہ دینا ہو گا۔ اگر مدت پوری کر لے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں۔ اگر اس نے ہمیشہ کے لیے قسم کھائی ہو یا چار ماہ سے زیادہ کی قسم کھائی ہے تو اسے بیوی کے مطالبہ پر صرف چار ماہ کی مدت دی جائے گی۔ اگر یہ مدت پوری کر لینے کے بعد اپنی بیوی سے ہم بستری کر لیتا ہے۔ تو اس پر صرف کفارہ واجب ہو گا اور اگر ہم بستری نہیں کرتا تو اسے طلاق پر مجبور کیا جائے گا۔ اگر طلاق نہیں دیتا تو عورت سے دفع ضر کے لیے حاکم وقت شوہر کی طرف سے طلاق کو نافذ کر دے گا۔ (ملاحظہ ہو تیسیر القرآن لبیان القرآن از دکتور لقمان سلفی ص 126)

لہذا مرد کا بیوی سے صرف دور رہنے سے طلاق واقع نہیں ہو جائے گی تاوقتیکہ وہ طلاق نہ دے ڈالے یا عورت خلع نہ لے لے۔ عام طور پر جو لوگ اپنے ملک سے باہر جاتے ہیں کسی کاروبار، نوکری وغیرہ کی غرض سے تو شوہر و بیوی عموما باہمی رضا مندی سے ہی ایسا کام کرتے ہیں اور مرد کئی کئی سال باہر رہتے ہیں اور عورتیں اس پر اعتراض نہیں کرتیں۔ بلکہ اس بات پر خوشی محسوس کرتی ہیں۔ سلف صالحین کے دور میں مرد حضرات جہاد فی سبیل اللہ میں کئی کئی سال اپنے گھر سے دور رہتے یا حصول علم کے لیے لمبے لمبے سفر کرتے تھے۔ کہیں سے بھی یہ بات نہیں ملتی کہ اس بُعد اور دوری کی بنا پر دونوں کا نکاح ختم ہونے کا کسی نے فتویٰ صادر کیا ہو۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد3۔کتاب النکاح-صفحہ355

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ