کیا ہم جماعت کرواتے وقت سورتوں کی ترتیب الٹ کر پڑھ سکتے ہیں مثلا پہلی رکعت میں امام سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ والناس پڑھ لیتا ہے اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص یا کوئی اور سورۃ پڑھ لیتا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟ (محمد بن خوشی محمد وتو 11/E-B نزد ٹلہ ڈاکخانہ پیر صدر دین عارفوالہ ضلع پاکپتن)
نماز میں بہتر تو یہی ہے کہ قرآن پاک کی قراءت موجودہ ترتیب کے مطابق کی جائے لیکن اگر کسی وقت ترتیب آگے پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ایسا کرنا کئی ایک احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اس سے نماز میں خلل اور خرابی واقع نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، کتاب قیام اللیل: باب تسویۃ القیام والرکوع والقیام بعد الرکوع والسجود والجلوس بین السجدتین فی صلاۃ اللیل: 1663۔ ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا باب ما یقول بین السجدتین 897' 1/387۔ مسند احمد 5/382)
نوٹ: (بریکٹ والے الفاظ سنن نسائی کے ہیں۔)
"حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ نے سورۃ بقرۃ پڑھنی شروع کی میں نے خیال کیا کہ آپ 100 آیات پر رکوع کریں گے آپ آگے گزر گئے پھر میں نے خیال کیا کہ 200 آیات پر رکوع کریں گے پھر آپ آگے نکل گئے میں نے پھر سوچا آپ اس پر ہی سلام پھیریں گے یعنی اسے دو رکعتوں میں تقسیم کریں گے آپ آگے نکل گئے میں نے سوچا بقرۃ کے آخر پر رکوع کریں گے پھر آپ نے سورۃ نساء شروع کی اسے پڑھنے کے بعد آپ نے سورہ آل عمران شروع کر دی۔
آپ نے اس کی قراءت کی آپ ٹھہر ٹھہر کر قراءت کرتے تھے جب کسی ایسی آیت کے پاس سے گزرتے جس میں تسبیح ہوتی تو آپ تسبیح پڑھتے اور جب سوال والی آیت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے اور جب عذاب والی آیت تلاوت کرتے تو اعوذ باللہ پڑھتے۔" الحدیث
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ نے نماز کی پہلی رکعت میں پہلے سورۃ بقرہ پڑھی پھر سورہ نساء پڑھی پھر سورۃ آل عمران جب کہ سورۃ آل عمران پہلے ہے اور سورہ نساء بعد میں پس معلوم ہوا کہ سورتوں کی ترتیب قراءت میں لازم نہیں۔
علامہ سندھی فرماتے ہیں: قوله (ثم افتتح آل عمران) مقتضاه عدم لزم الترتيب بين السور فى القرأة
(حاشیہ سندھی علی النسائی 2/250 مطبوعہ بیروت)
"اس حدیث کا متقضیٰ یہ ہے کہ قراءت کے دوران سورتوں کی ترتیب لازم نہیں۔"
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری آدمی مسجد قباء میں ان کی امامت کراتا تھا وہ جب بھی کوئی سورت پڑھتا تو اس سے پہلے قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ پڑھتا جب اس سے فارغ ہوتا پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت پڑھتا اور ہر رکعت میں ایسے ہی کرتا تھا اس کے ساتھیوں نے گفتگو کی اور کہا تم اس سورۃ کے ساتھ شروع کرتے ہو پھر اسے کافی نہیں سمجھتے یہاں تک کہ دوسری سورۃ پڑھتے ہو تم یا تو قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ پڑھا کرو یا اسے چھوڑ کر کوئی اور سورت پڑھ لیا کرو۔
اس نے کہا میں اسے چھوڑنے والا نہیں ہوں اگر تم پسند کرو تو تمہاری امامت کروا دوں گا اور اگر ناپسند کرو تو تمہیں چھوڑ دیتا ہوں وہ اسے اپنے میں سے افضل سمجھتے تھے انہوں نے اس کے علاوہ کسی اور کی امامت کو ناپسند کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی آپ نے فرمایا تجھے اپنے ساتھیوں کی بات ماننے سے کون سی چیز مانع ہے؟ اس سورۃ کو ہر رکعت میں لازم پکڑنے پر تمہیں کس چیز نے ابھارا ہے؟ تو اس نے کہا:
"مجھے اس سورت سے محبت ہے" آپ نے فرمایا: تیری اس کے ساتھ محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی۔"
(بخاری، کتاب الاذان، باب الجمع بین السورتین فی رکعۃ والقراۃ بالخواتیم و بسورۃ قبل سورہ و باول سورۃ (774) ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی سورۃ الاخلاص (2901) تغلیق التعلیق۔ 2/314۔315)
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ترتیب لازمی نہیں ہے کیونکہ انصاری صحابی جب نماز پڑھاتے تو سورۃ فاتحہ کے بعد پہلے سورہ اخلاص پڑھتے پھر کوئی اور سورۃ پڑھتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات بتائی گئی تو آپ نے منع نہیں فرمایا بلکہ
"کہہ کر تصدیق کر دی اور بتا دیا کہ اس سورت کے ساتھ تیری محبت تجھے جنت میں داخل کر دے گی۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں اس صحابی کا نام کلثوم بن الھدم تھا۔ (فتح الباری: 2/258)
عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے انہوں نے کہا:
(تغلیق التعلیق: 2/313'314 بخاری مع فتح الباری: 2/257 یہ حدیث کتاب الصلاۃ الجعفر الفریابی اور مستخراج ابی نعیم میں بھی موجود ہے)
"ہمیں احنف بن قیس نے صبح کی نماز پڑھائی انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ کہف اور دوسری میں سورۃ یونس پڑھی۔ قرآن پاک میں سورۃ کہف کا نمبر 18 ہے جب کہ سورۃ یونس کا نمبر 10 ہے۔ خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں قراۃ کرتے ہوئے سورتوں کی ترتیب لازمی نہیں وگرنہ وہ پندرھویں اور سولہویں پارے سے سورۃ کہف رقم 18 پہلی رکعت میں اور گیارہوین پارے سے سورۃ یونس رقم 10 تلاوت نہ کرتے۔"
مذکورہ بالا احادیث و آثار صحیحہ صریحہ سے معلوم ہوا کہ نماز میں سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے قراءت کرنا لازمی نہیں لہذا جن حضرات نے اسے بدعت کہا ہے وہ اپنی بات سے رجوع کریں معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے جہالت و نادانی اور ضد و تعصب کی وجہ سے ایسے کہا ہے ان حضرات کے پاس اس کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں۔ ان کا استہزاء و طعن اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت سے نواز دے اور صراط مستقیم پر گامزن فرمائے۔ حنفی علماء میں سے کئی ایسے ہیں جو اس صورت کو جائز کہتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے " باب الجمع بين السورتين فى ركعة والقرأة بالخواتيم و بسورة قبل سورة و باؤل سورة " میں قراۃ کی چار صورتیں ذکر کی ہیں۔
(1) ایک رکعت میں دو سورتوں کو جمع کرنا (2) سورتوں کے آخری حصے کی قراءت کرنا (3) سورتوں کی تقدیم و تاخیر (4) سورتوں کو ابتداء سے پڑھنا۔ مشہور متعصب حنفی سید احمد رضا بجنوری اپنے استاذ انور شاہ کاشمیری کے بارے میں لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا: امام طحاوی نے ان چاروں صورتوں کو جائز لکھا ہے اور میرے نزدیک طحاری کو ترجیح ہے۔ (انوار الباری: 2/350)
مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے کہ ائمۃ ثلاثہ کے نزدیک خلاف ترتیب پڑھنا مطلقا جائز ہے" (شرح مسلم 2/530)
بہرکیف احادیث صحیحہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خلاف ترتیب پڑھنا جائز ہے اس سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جاہل و ناواقف افراد کا خلاف سنت و حدیث کا فتویٰ لگانا سوائے گمراہی کے اور کیا ہو سکتا ہے ایسے حضرات کو پیار و محبت سے سمجھائیں اور قرآن و حدیث کی اہمیت کا احساس ان میں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب