کیا ہم اہل بدعت کی اذان کا جواب دے سکتے ہیں کیونکہ وہ اذان کی ابتداء صلاۃ و سلام النبی سے کرتے ہیں۔ (بنت المجاھد ابو شہزاد نبی شیر۔ شہداد پورہ)
اذان کی ابتداء میں صلوۃ علی النبی (مروجہ کلمات الصلوۃ والسلام ۔۔) سنت سے ثابت نہیں۔ اذان کے بعد مسنون صلوٰۃ و اذکار پڑھنا باعث فضیلت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ معمول تھا اور یہی اہل سنت کا طریقہ ہے۔ اذان سے قبل درود و سلام اہل بدعت کا طریقہ ہے۔ اس لئے اہل بدعت کی اذان کے مسنون الفاظ سنیں تو ان مسنون الفاظ کا جواب دینا چاہیے کیونکہ اذان کا جواب دینا بہت اجر و ثواب کا باعث ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی فضیلت آتی ہے۔
٭ جب اذان سنو تو جیسے مؤذن کہے تم بھی کہو۔
(ترمذی، ابواب الصلوۃ، باب ماجاء ما یقول الرجل اذا اذن الموذن)
٭ جس نے اذان سن کر وہی پڑھا جو موذن نے کہا ہے اور پھر
اسی طرح فرمایا:
"جس نے اذان سن کر پڑھا
قیامت والے دن میری شفاعت اس کے لیے حلال ہو جائے گی۔ (بخاری، باب الدعاء عندالنداء)
ان روایات کی روشنی میں بعض کے نزدیک اذان کا جواب دینا واجب اور بعض کے نزدیک مستحب ہے۔ واجب بھی ہو تو صرف ایک اذان کا جواب دینا کافی ہے۔ باقی سب کا آپ جواب نہ بھی دیں تو کوئی حرج نہیں۔ دے دیں تو بہرحال ثواب ہے۔
باقی رہا اہل البدعۃ کی اذان کا جواب دینے کا مسئلہ، تو اذان بہرحال اذان ہے۔ آپ اس کا جواب دیں۔ ان کی بدعت کلمہ حق پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ غلطی کا گناہ ان پر ہے حق میں آپ ان کے ساتھ صرف حق میں ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب بخاری شریف میں سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اثر نقل کرتے ہیں۔
ان سے بدعتی امام کی اقتداء کے بارے میں سوال کیا گیا تو جواب دیا:
(فصل وعليه بدعته)تو اس کے پیچھے نماز پڑھ۔
اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہے۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب امامۃ المفتون المبتداء)
اسی طرح عبیداللہ بن عدی بن خیار، جن دنوں سیدنا عثمان محصور تھے، ان کے پاس تشریف لائے سوال کیا۔ آپ کو تو امامت عامہ کا حق تھا۔ لیکن اب جو کچھ آپ کے ساتھ گزاری ہے ہمیں معلوم ہے۔ ہمیں باغیوں کا امام نماز پڑھاتا ہے اور ہم دل تنگ کرتے ہیں۔ تو سیدنا عثمان نے جواب دیا۔ "لوگوں کے اعمال میں سے بہترین عمل نماز ہے، جب وہ نیکی کریں تو ان کے ساتھ نیکی کرو اور جب وہ برے کام کریں تو تم ان کی برائیوں سے بچو۔ (بخاری۔ حوالہ سابق)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب