سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) حالت خطبہ میں دو رکعت نماز

  • 21113
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-21
  • مشاہدات : 769

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

درج ذیل  الفاظ  سے مشہور حدیث کے بار ے  میں تحقیق درکار ہے '

 اذا صعد  الخطيب المنبر  فلايتحدثن  احدكم  ومن يتحدث  فقد لغاومن لغا فلاجمعة لهّانصتوا لعلكم  ترحمون "

اس حدیث  کی تحقیق کے تحت  مسئلہ  کی محقق ومدلل وضاحت  بھی فرمادیں  جزاکم اللہ خیرا ( ذکاء  الرحمن  ذکی ( درجہ سابعہ ) دارالعلوم  تقویۃ الاسلام ۔اوڈانوالہ ۔ضلع فیصل آباد )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ روایت مجھے  حدیث کی کتاب  میں سند کے ساتھ  نہیں ملی ۔

اسے شیخ  عبدالمتعال (بن محمد ) الجبری  نے اپنی کتاب  "المشتهر  من  الحديث  الموضوع والضعيف والبديل  الصحيح  " میں ذکر کیا ہے ۔( 168 ،وموسوعۃ  الآحادیث والآثار  الضعیفہ  والموضوعۃ  ج1ص 503 ح 1625)

شیخ  البانیؒ  نے فرمایا :" باطل  ‘ قداشتهر بهذا الفظ  علي الالسنة وعلق علي المنابر  ولااصل  له " یہ روایت  باطل  ہے۔ یہ زبانوں  پر مشہور ہے اور منبروں  پر اسے  لکھ کر لٹکایا جاتا ہے۔اس کی کوئی  اصل نہیں ہے۔ ( سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ  والموضوعۃ 1/ 122ح 87)

 اس بے اصل  اور موضوع روایت  کے دو شاہد ( تائید  والی روایتیں) ہیں :

1)     عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ( السنن  الکبریٰ للبیہقی 3/193)

یہ سند  تین وجہ سے  ضعیف  ہے:

اول:الحسن بن علی  (یاعلی  بن الحسن) العسکری  کی توثیق نامعلوم ہے۔

دوم:  محمد بن عبدالرحمن  بن (سہیل  یاسہم ) کی توثیق نامعلوم  ہے۔

 سوم: یحیی بن ابی کثیر  مدلس  تھے  اور روایت  عن سے ہے ۔

( دیکھئے  تقریب التہذیب :7632 والنکت علی ابن الصلاح2/643 واتحاف  المہر ۃ3/ 325ح  3122)

 امام دارقطنی نے فرمایا :" ويحيي بن ابي  كثير  معروف  بالتدليس(العلل  الوارده  ١/١٣٤ سوال: ٢١٦٣)

2)     عن ابن عمر رضی اللہ عنہ  رواہ الطبرانی  فی الکبیر  بحوالہ  مجمع الزوائد (2/184)

یہ روایت المعجم  للطبرانی  میں نہیں ملی  اور نہ  اس کی پوری  سند کسی کتاب  سے دستیاب  ہوسکی ہے۔ایوب  بن  نہیک  جمہور محدثین  کے نزدیک  ضعیف  ومجروح راوی  ہے۔

 حافظ  ابن حجر فرماتے  ہیں :"والجواب  عن حديث ابن عمر  بانه  ضعيف فيه  ايوب ابن نهيك  وهو  منكر  الحديث  قاله  ابو زرعة  وابو حاتم  والاحاديث الصحيحة لاتعارض  بمثله " حدیث ابن عمر  کا جواب یہ ہے کہ  (بلحاظ  سند) ضعیف ہے ۔اس (کی سند) میں ایوب  بن نہیک (راوی) منکرالحدیث( یعنی  سخت  ضعیف ) ہے  جیسا کہ  ابوزرعہ  اور ابوحاتم  نے فرمایا ہے اور  صحیح  احادیث  کو ایسی  (مردود) روایت  کی بنا پر رد نہیں کیا جاسکتا ۔ (فتح الباری 2/409تحت  ح  930)

ایوب  سے اوپر اور نیچے  سند نامعلوم  ہے اور ایسی  بے سند وباطل  روایتوں  پر اعتماد کرناجائز نہیں ہے ۔

خلاصہ التحقیق: یہ روایت  باطل ومردود ہے ۔

صحیح  بخاری  1166) اور صحیح مسلم (875) میں حدیث ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:

" جب تم  میں سے کوئی  شخص آئے  اور امام خطبہ دے  رہا ہو  تو  یہ شخص دو رکعتیں  پڑھے ۔"

اس صحیح  حدیث کے خلاف  یہ بے سند ،ضعیف  ومردود روایتیں  سرے  سے مردود ہیں۔

سیدنا  ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ  نے (نبی ﷺ کی وفات کے بعد) جمعہ کے دن ، مسجد میں خطبہ  کے دوران  میں آکر  دو رکعتیں  پڑھیں ۔ بعض  مروانی  سپاہیوں  نے انھیں  منع  کرنے کی کوشش  کی مگر   انھوں نے  فرمایا :" میں ان دو رکعتوں  کو کس  طرح  چھوڑسکتا ہوں  جب کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا  ہے کہ۔۔۔"

( جزء  رفع الدین :162، وسندہ  حسن ،سنن  ابی داؤد:1675،سنن الترمذی  :511 وقال :" حسن  صحیح ")

حالت  خطبہ  میں آپس  میں باتیں  کرنے کی ممانعت  کے لیے  دیکھئے  صحیح بخاری (934)وصحیح  مسلم (851)

ابن عون ؒ نے فرمایا : حسن  (بصری ؒ) آتے  اور امام ( جمعہ  کا ) خطبہ  دے رہا ہوتا تھا تو  وہ دو رکعتیں  پڑھتے  تھے۔( مصنف ابن ابی شیبہ  ج2ص 111 ح 5165وسندہ صحیح) وما علينا الالبلاغ (4/محرم  1427ھ) (الحدیث :24)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ445

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ