سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(139) بسم اللہ بالجہر کا مسئلہ

  • 21032
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1416

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بالجہر پڑھنے کی کیا دلیل ہے؟(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سری نمازوں میں تو بسم اللہ آہستہ پڑھنے پر اتفاق ہے جبکہ جہری نماز میں سراً(آہستہ)بھی صحیح اور جائز ہے جیسا کہ صحیح مسلم (ح 399)وغیرہ سے ثابت ہے اور جہراً بھی جائز ہے لیکن سراً پڑھنا افضل ہے۔ عبد الرحمٰن بن ابزی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا:

"صليت خلف ابن عمر فجهر: ببسم الله الرحمن الرحيم"

میں نے عمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے پیچھے نماز پڑھی آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جہراً(اونچی آواز سے) پڑھی ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص412شرح معانی الآثار ج1ص137دوسرا نسخہ ج1ص200السنن الکبری للبیہقی ج2ص48)

اس کی سند بالکل صحیح ہے۔ دیکھئے راقم الحروف کی کتاب ہدیۃ المسلمین (حدیث:13)

امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے دور خلافت میں جہر کے ساتھ بسم اللہ پڑھی۔ کسی صحابی سے ان کے عمل کا رد منقول نہیں ہے لہٰذا ثابت ہوا بسم اللہ بالجہر کے جواز پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا عہد فاروقی میں اجماع ہے۔ احادیث صحیحہ اور عموم قرآن سے ثابت ہے کہ اجماع شرعی حجت ہے اور امت مسلمہ گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو سکتی ۔ دیکھئے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کی کتاب"الرسالۃ"اور دیگر کتب محدثین،

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نماز پڑھائی تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر پھر سورۃ فاتحہ پڑھی ،پھر آمین کہی اور آخر میں فرمایا:

"وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

"اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری نماز تم سب سے زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی نماز سے مشابہ ہے۔

(سنن النسائی :906صححہ ابن خزیمہ ج1ص251ح499،وابن حبان الاحسان ج3ص143ح 794والحاکم1/232والذہبی )

اس کی سند بالکل صحیح ہے خالد کا سعید بن ابی ہلال سے سماع قبل از اختلاط ہے کیونکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں خالد عن ابی ہلال والی روایات موجود ہیں۔

دیکھئے راقم الحروف کا رسالۃ القول المتین فی الجہر بالتامین"(ص25)

زیلعی حنفی کا اپنے مسلک کی حمایت میں اسے شاذ کہنا صحیح نہیں ہے۔

اس صحیح اور مرفوع حدیث سے بسم اللہ بالجہر کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  اور امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ ،امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ ، وغیرہما محدثین نے استدلال کیا ہے۔

بقول امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ  :اس حدیث کے راوی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، تابعین کرام رحمہم اللہ اور امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ  (ان احادیث و دیگردلائل کی وجہ سے)بسم اللہ بالجہر کے قائل تھے۔

(دیکھئے سنن ترمذی الصلوٰۃ باب من رای الجہر بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ح245)

جو شخص بسم اللہ بالجہر پر اعتراض کرے گا ۔اس کا اعتراض بلا واسطہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  پر وارد ہو گا۔ عقائد ،اعمال وغیرہ کے بارے میں اہل حدیث پر جو بھی اعتراض کیا جاتا ہے اس کا ہدف احادیث صحیحہ آثار صحابہ ،آثار تابعین اور آئمہ اسلام ضرور بنتے ہیں۔

یہاں بطور فائدہ عرض ہے کہ متعدد علماء حق نے بسم اللہ بالجہر پر کتابیں اور رسالے لکھے ہیں مثلاً شیخ الاسلام امام علی بن عمرالدارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ۔

تنبیہ:زیلعی نے شیخ الاسلام امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  سے نقل کیا کہ بعض مالکیوں کے قسم دینے پر انھوں نے کہا کہ بسم اللہ بالجہر کے بارے میں میں کوئی مرفوع حدیث صحیح نہیں ہے۔

(نصب الرایہ ج1ص358،359،التحقیق مع التنقیح ج1ص313)

لیکن یہ قصہ مردود ہے۔ امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ  سے ثابت ہی نہیں ہے کیونکہ اسے روایت کرنے والے مجہول ہیں۔"وقد حكي لنا مشائخنا" "(اور ہمیں ہمارے مشائخ نے بتایا ہے)اور نہ ان مجہول مشائخ کی امام دارقطنی  رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ثابت ہے۔اس قسم کی ضعیف ومردود حکایات کے "زور"پر زیلعی صاحب بسم اللہ بالجہر کی مخالفت فرما رہے ہیں۔

انا لله وانا الیه راجعون:

محمد تقی عثمانی دیوبندی فرماتے ہیں۔ "حنفیہ میں سے اس موضوع پر سب سے مفصل کلام حافظ جمال الدین زیلعی رحمۃ اللہ علیہ  نے کیا ہے۔ انھوں نے"نصب الرایہ" میں اس مسئلہ پر تقریباً ساٹھ صفحات لکھے ہیں۔ اور اپنی عام عادت کے خلاف بڑے جوش وخروش کا مظاہرہ کیا ہے اس تمام ترنزاع کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تسمیہ کے جہرواخفاء کے مسئلہ میں اختلاف جواز اور عدم جواز کا نہیں ہے بلکہ محض افضل ومفضول کااختلاف ہے۔"(درس ترمذی ج1ص499)

مذکورہ بالا ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ بسم اللہ جہراً وسراً دونوں طرح پڑھنا صحیح اور جائز ہے۔(شہادت ستمبر2000ء)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ

جلد1۔كتاب الصلاة۔صفحہ317

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ