السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے گاؤں کے ساتھ ایک اور گاؤں ہے۔اس گاؤں کے باہر ایک مسجد تھی لیکن اب گاؤں والوں نے گاؤں کے اندر ہی نئی مسجد بنالی ہے۔پوچھنا یہ ہے کہ کیا اب ہم اس پہلی مسجد کو جو بالکل بند پڑی ہے اسے سکول بناسکتے ہیں یا مسجد کی عمارت شہید کرکے اسے عید گاہ بنا سکتے ہیں؟کیونکہ مسجد بالکل بند ہے۔قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔(ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بہتر یہ ہے کہ مسجد کو تبدیل نہ کیا جائے بلکہ اسے آباد کیاجائے۔اگر اس گاؤں کے صحیح العقیدہ لوگ بالاتفاق اسے عید گاہ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو حافظ عبداللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انھوں نے کہا:
"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے راستہ تنگ ہونے کیوجہ سے مسجد کا کچھ حصہ راستہ میں ملا کر اس کو فراخ کردیا۔ملاحظہ ہو فتاویٰ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (فتاویٰ اہل حدیث ج1ص 349)
اس سلسلے میں انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل سے بھی استدلال کیا ہے کہ انھوں نے جامع مسجد،کھجوروں کے تاجروں سے بدل کر دوسری جگہ لے گئے اور وہاں بازار بن گیا۔(ایضاً)
اس کے برعکس بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ جہاں مسجد بن جائے اسے قیامت تک تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔واللہ اعلم۔ (شہادت،جولائی 1999ء)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب