سکول گھنٹی نمبروار لگانے سے(1،2،3) طلبہ اور اساتذہ کو ا پنی اپنی ڈیوٹی کا پتہ چلتا رہتا ہے۔لیکن صرف(نمبر گنتی کے بغیر) گھنٹی سے صورتحال کا ادراک کماحقہ نہیں ہوتا۔خاص کر موسمی حالات یا کچھ مجبوری سے ٹائم ٹیبل بار بار بدلنے کی وجہ سے اساتذہ میں اپنے پیریڈوں کے بارے میں اُلجھن زیادہ ہوتی ہے۔چونکہ ہماری نیت یہود ونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں بجنے والی گھنٹیوں کے ساتھ مشابہت نہیں۔ویسے بھی بجانے کا انداز غالباً ان سے یکسر مختلف ہے لہذا اس کے بارے میں اپنے اجہتاد سے آگاہ فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔اللہ جل شانہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔(محمد صدیق خالد،پرنسپل الدعوۃ سکول مریدکے)
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ سکول کے اوقات معلوم کرنے کے لیے گھنٹی سے کام لینے سے فائدہ ہے مگر مسلمان کے سامنے صرف فائدہ ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا بھی پابند ہے۔چاہے اسے کسی چیز سے کتنا زیادہ فائدہ دکھائی دیتا ہو،اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرمادیں تو وہ حکم عدولی نہیں کرے گا۔وقتی نقصان خوش دلی سے گوارا کرے گا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں اور ان کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ ہوتا ہے۔"
کتاب اللہ کا اعجاز دیکھئے۔شراب اور جوئے کے فوائد سے انکار نہیں کیا۔فائدہ تسلیم کرکے یہ بتایا کہ ان کاباعث گناہ ہونا،ان سے فائدہ اُٹھانے میں حائل ہے۔
گھنٹی کا بھی یہی حال ہے ۔بڑی گھنٹی کو عربی میں ناقوس کہتے ہیں۔جانوروں کے گلے والی گھنٹی کو جرس کہتے ہیں۔اس سے چھوٹی وہ تو اسے جلجل (گھنگھرو) کہتے ہیں۔
ان کے فوائد سے انکار نہیں کیا جاسکتا ناقوس وقت کی اطلاع دینے کے لیے بجائی جاتی ہے اور جرس اونٹوں کی قطار میں اس بات سے آگاہ رکھتی ہے کہ آخری اونٹ بھی قطار کے ساتھ موجود ہے۔اگر جانور ہٹ یاکھر اس پر چل رہا ہوتو وہ گھنٹی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصروف کار ہے یا رک گیا ہے۔
مگران کے گناہ ہونے کی جانب بھاری ہے۔ناقوس سے عیسائیوں سے مشابہت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جوشخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت کرے گا وہ انہی سے ہے۔"
مسلمانوں کے لیے وقت کی اطلاع دینے کے لحاظ سے سب سے اہم چیز اذان ہے۔صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
"جب لوگ زیادہ ہوئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کا وقت کس چیز کے ساتھ معلوم کریں جسے وہ پہچان لیاکریں تو انہوں نے ذکر کیا کہ آگ کو جلا دیا کریں یا گھنٹی بجا دیا کریں تو بلال کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان کے دو کلمے اور اقامت ایک ایک کلمہ کہے۔"
بخاری میں روایت مختصر ہے۔ابو الشیخ نے اسے ان الفاظ میں روایت کیا ہے کہ"لوگوں نے کہا کہ اگر ہم گھنٹی بنالیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ تو عیسائیوں کے لیے ہے۔"انہوں نے کہا اگر ہم بوق(بگل) بنالیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ یہود کے لیے ہے۔"انہوں نے کہا اگر ہم آگ بلند کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ محبوس کے لیے ہے۔"(فتح الباری شرح(603)
اس سے معلوم ہوا کہ وقت کی اطلاع کے لیے اسلام میں گھنٹی،بگل یا آگ کی بجائے انسانی آواز کو اختیارکیا جاتا ہے اور یہ فطرت ہے کیونکہ گھنٹی ،بگل یا آگ ہر جگہ اور ہر وقت میسر نہیں آسکتے۔عیسائیوں،یہودیوں اور مجوسیوں کے غیر فطری طریقے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔
جرس(جانوروں کے گلے والی گھنٹی) اور ناقوس میں یہ فرق ہے کہ جرس خود بخود جانور کی حرکت سے بجتی ہے جبکہ ناقوس بجائی جاتی ہے۔نغمے کے لحاظ سے دونوں کی آواز ملتی جلتی ہے۔عیسائیوں کی مشابہت کے علاوہ ناقوس(بڑی گھنٹی) کے ناپسندیدہ ہونے کی وجہ گھنٹی کی آواز کا نغمہ ہے۔جو ناقوس اور جرس دونوں میں موجود ہے اور مزامیر(باجوں) سے ملتا جلتا ہے۔چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"گھنٹی شیطان کے باجے ہیں۔"
شیطان کی پسند کی یہ چیز ہونے کی وجہ سے فرشتوں کوگھنٹی سے اتنی نفرت ہے کہ رفقاء کے جس قافلے یا مجلس میں وہ موجود ہو(رحمت کے )فرشتے ان کے ساتھ نہیں رہتے۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فرشتے ان کے رفقاء کے ساتھ نہیں رہتے جن میں کتا یا گھنٹی ہو۔"
یہ ایسی ناپاک چیزیں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں موجود ہوں تو رحمت کے فرشتے وہاں آنے سے بھی اجتناب کرتے ہیں۔میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حال میں صبح کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غم واندوز میں ڈوبے ہوئے خاموش تھے۔فرمانے لگے کہ جبرئیل علیہ السلام نے آج رات مجھ سے ملنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ملے نہیں۔اللہ کی قسم انہوں نے وعدہ خلافی نہیں کی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کتے کے ایک بچے کا خیال آیا جو آپ کی چارپائی کے نیچے تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے نکال دیا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی جگہ پر پانی چھڑکا۔شام ہوئی تو جبرئیل علیہ السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تو فرمایا کہ تم نے مجھ سے کل رات ملنے کا وعدہ کیا تھا؟انہوں نے فرمایا ہاں مگر ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔"
(مسلم کتاب اللباس (82))
اب آپ کفار کی مرغوب ومحبوب چیز کو دیکھیں تو اس میں کتا ،تصویر اور جرس نمایاں نظر آئیں گی اور ان کی کوشش یہ ہے کہ دُنیا بھر میں مسلمان ہویا غیر مسلم ،کوئی گھر ان سے خالی نہ رہے حتیٰ کہ ان کے بنائے ہوئے کلارک ہمارے گھروں اور ہماری مساجد میں آویزاں ہیں جن میں گھنٹی کی آواز وقت بتانے کے لیے اختیار کی گئی ہے بلکہ گھنٹی کے مزامیری نغمے کوکم سمجھ کر موسیقی کی آواز دو گھنٹیوں کے درمیان بڑھا دی گئی ہے۔گھروں کے دروازے پر لگائی جانے والی گھنٹی کی آواز بھی عموماً ناقوس یاجرس سے ملتی جلتی ہے اب اگر مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر چلنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے گھروں سے اپنی مسجدوں سے اپنے مدارس اور اپنی سواریوں سے شیطان کے ان مزامیر کو دور کرنا ہوگا۔کلاکوں سے وہ پرزہ نکالنا ہو گا جس سے گھنٹی کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم پیریڈ بدلنے کے لیے یا وقت کی اطلاع دینے کے لیے کیا کریں۔۔۔؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ سب سے بہتر تویہ ہے کہ اس مقصد کے لیے انسانی آواز استعمال کی جائے۔اس کے لیے سپیکر استعمال ہوسکتا ہے۔اس سے واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ کون سا پیریڈ ہے۔یا پھر اگر ہم الیکٹرانک گھنٹی خرید سکتے ہیں تو آپ آلہ بھی خرید سکتے ہیں جس میں انسانی آواز بھری ہوئی ہو۔آج کل بہت سے ٹائم پیسیز اور گھڑیوں میں اذان یا اقامت یا دوسری قسم کی آوازیں بھر ی گئی ہیں۔گھروں میں لگائے جانے والے آلات میں گھنٹی کی آواز کی جگہ السلام علیکم وغیرہ کے الفاظ سنائی دیتے ہیں۔اسی طرح پیریڈ بدلنے کے لیے الفاظ بھی بھرے جاسکتے ہیں۔الدعوۃ ماڈل سکولز سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ الیکٹرانک سائنس کا یہ معمولی سا کام کرنے سے عاجز نہیں رہیں گے۔ہمارے مجاہد بھائی جو باقاعدہ سائنس کے تعلیم یافتہ بھی ہیں،انہوں نے اپنی گاڑیوں میں ایسے پرزے لگائے ہیں کہ دروازہ کھولیں تو السلام علیکم اور اس قسم کے فقراءت کی آواز خود بخود نکلتی ہے اور گھروں میں بھی اس قسم کی اطلاع دینے والے آلات لگائے ہیں۔
اگر انسانی آواز والا آلہ مشکل ہوتو ایسا آلہ استعمال کرلیں جس میں آواز تو ہو مگر وہ ناقوس یاجرس یا موسیقی سے نہ ملتی ہوتاکہ عیسائیوں سے مشابہت اور شیطان کے ماحول سے اجتناب ہوسکے۔الارم کے طور پر مرغ کی آواز بھی استعمال ہوسکتی ہے بلکہ ہورہی ہے۔
آخر میں گزارش ہے کہ آپ نے جو لکھا ہے کہ چونکہ ہماری نیت یہودونصاریٰ کی عبادت گاہوں میں بجنے والی گھنٹیوں سے مشابہت نہیں ہے ویسے بھی بجانے کا نداز ان سے یکسر مختلف ہے۔لہذا اس کے بارے میں اجتہاد سے آگاہ فرمائیں۔
تو گزارش یہ ہے کہ ہرکام کے درست ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ایک تو یہ کہ نیت درست ہو،دوسرا وہ کام فی نفسہ درست ہو۔اگر کوئی کام فی نفسہ غلط ہے تو نیت جتنی مرضی درست کرلیں وہ کام درست نہیں ہوگا۔اُمید ہے کہ آپ کے سامنے اس کے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
گھنٹی بجانا فی نفسہ غلط کام ہے۔یہ شیطان کا باجا ہے جس گھر میں یہ ہو،وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔اب اگرپیریڈ بتانے کا تھوڑا سا فائدہ حاصل ہو بھی تو کیا فائدہ؟جب کہ ہم نے شیطان کو خوش کیا اور فرشتوں کو گھر میں آنے سے روک دیا۔رہ گیا اجتہاد تو وہاں ہوتا ہے جہاں ہمیں صرف حکم معلوم نہ ہورہا ہو اور وہ بھی اس وقت تک جائز ہے جب تک ہمیں قرآن وحدیث سے اس کا واضح حکم معلوم نہ ہوجائے اس کے بعد نہ اجتہاد کرنا جائز ہے نہ کسی کے اجتہاد کے پیچھے چلنا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کے کاموں کی توفیق عطا فرمائے۔آمین (ع۔م۔مجلۃ الدعوۃ جنوری 1999ء)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب