سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(73) محرم کے بغیر عورت کا سفر

  • 20889
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 6174

سوال

(73) محرم کے بغیر عورت کا سفر
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت محرم کے بغیر سفر کر سکتی ہے۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟دور حاضر میں عورتیں دینی پروگراموں کے لیے محرموں کے بغیر دور دراز کے سفر کرتی ہیں یا کبھی ایسے ہوتا ہے کہ ایک عورت کا محرم ساتھ ہوتا ہے باقی اس عورت کے ساتھ مل کر سفر کرتی ہیں۔ کیا ان کا یہ عمل درست ہے؟ بعض عورتیں یہ کہتی ہیں کہ عورت ایک دن رات کا سفر محرم کے بغیر کر سکتی ہے۔ کتاب و سنت سے واضح کریں۔(اُم المجاہدین،ملتان)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تبارک و تعالیٰ نے عورت کی عفت و عصمت کو محفوظ کرنے کے لیے اس کا مسکن گھر کی چار دیواری قراردیا ہے تاکہ یہ اپنے گھر کے اندررہ کر اپنی عزت کو بچائے رکھے کیونکہ عورت جب اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھنکتا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے۔

"المرأةُ عَوْرةٌ، فإذا خَرَجَت استَشْرَفَها الشَيطانُ "

(ترمذی بحوالہ مشکوۃ (3109))

"عورت چھپانے کی چیز ہے جب یہ (گھر سے)نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف نگاہ کرتا ہے۔"

علامہ البانی حفظہ اللہ نے مشکوۃ کی تعلیق میں اس کی سند کو صحیح  قرار دیا ہے اس حدیث کا واضح مفہوم یہ ہے کہ عورت جب اپنے گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو لوگوں کی نظروں میں مزین کر دیتا ہے اور لوگ اس کی طرف نگاہیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں۔ اسے اپنے دامن تزویر میں پھنسانے کے لیے ہر ممکن چارہ جوئی کرتے ہیں اور ایسی کتنی ہی امثلہ ہمارے معاشرے میں موجود ہیں کہ عورت جب بازار میں کسی کام کی غرض سے نکلتی ہے تو اسے شیطان صفت انسان اپنی نفسانی شرارتوں میں پھانس لیتے ہیں اور کتنی ہی عورتیں ہیں جو اپنے گھر سے نکلیں۔ اور پھر واپس نہیں پلٹیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو قواعد و ضوابط مقرر فرمائے ہیں وہ عورت کے تقدس کو محفوظ کرنے کے لیے ہی ہیں۔ عورت کو اگر کسی کام کے لیے سفر پر نکلنا پڑے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے بتایا ہے کہ وہ اپنے محرم کو ساتھ لے کر نکلے ۔ بغیر محرم کے عورت کا سفر کرنا بالکل ناجائز و حرام ہے ۔ عورت نہ ایک دن و رات کا سفر محرم کے بغیر کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے کم یا زیادہ سفر میں محرم کی پابندی عورت کے لیے لازم ہے۔ چند ایک احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔

1۔حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

(لا تسافر امرأة فوق ثلاث ليال إلا مع ذي محرم)

(صحیح مسلم کتاب الحج باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ (418،1338) ابن حبان فصل فی سفر المراۃ(2707)بیہقی کتاب الصلاۃ باب حجۃ من قال لا تفصر الصلاۃ فی اقل من ثلاثہ ایام 3/138،ابو داؤدکتاب المنا سک باب فی المراۃ تحج بغیر محرم(1726)ابن ماجہ کتاب المناسک باب المراۃ تحج بغیر ولی(2898) ترمذی کتاب الرضاع باب ماجاء فی کراھیہ ان تسافر المراۃوحدھا۔(1169)

"کوئی عورت تین راتوں سے زائد محرم کے بغیرسفر نہ کرے۔"

ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ میں ہے کہ:

"لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَكُونُ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا، إِلاَّ وَمَعَهَا أَبُوهَا، أَوْ ابْنُها، أَوْ زَوْجُهَا، أَوْ أَخُوهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا "(حوالہ مذکورہ)

"جو عورت اللہ تعالیٰ اورروز قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے۔ اس کے لیے تین دن یا اس سے زائد سفر کرنا حلال نہیں مگر اس کے ساتھ اس کا باپ بھائی یا خاوند یا بیٹا یا کوئی اور محرم ہو۔"

2۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ ثَلاَثِ لَيَالٍ إِلاَّ وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ"

(صحیح مسلم کتاب الحج باب سفر المراۃ مع محرم الی حج وغیرہ (1338)ابو داؤدکتاب المناسک باب فی المراۃ تحج بغیر محرم(1726)بیہقی 3/138۔ابن حبان 5/177(2719)صحیح بخاری کتاب تفصیر الصلاۃ باب فی کم یقصر الصلاۃ (1086،1087)

"جو عورت اللہ اورروز قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ تین راتوں کا سفر کرے مگر اس کے ساتھ محرم ہو۔"

3۔ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نهى أن تسافر المرأة مسيرة يومين إلاَّ ومعها زوجها أو ذو محرم"

(بخاری کتاب العمل فی الصلاۃ باب مسجد بیت المقدس (1197)و کتاب جزاء الصیدباب حج النساء (1864) و کتاب الصوم باب صوم یوم النحر(1995)مسلم

کتاب الحج باب سفر المراۃمع المحرم الی حج وغیرہ(1338۔415) بیہقی 3/138۔ابن حبان 5/175(2713،2712)مسند ابی یعلیٰ 2/388،1160

"عورت دو دن کا سفر نہ کرے مگر اس کے ساتھ اس کا شوہر یا محرم ہو۔"

4۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کرتے ہیں ۔

"لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إِلاَّ مَعَ ذِي مَحْرَمٍ عَلَيْهَا"

 (صحیح بخاری کتاب تفصیر الصلاۃ باب فی کم یقصر الصلاۃ (1088) مسلم کتاب الحج باب سفر المراۃمع المحرم الی حج وغیرہ(1339) بیہقی 3/139۔ابن ماجہ کتاب المناسک باب المراۃ تحج بغیر ولی(2899) ابن حبان5/176(2714)

"جو عورت اللہ تعالیٰ اور روزقیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے۔اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ محرم کے بغیر ایک دن اور رات کا سفر کرے"

5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاَ يَحِلُّ لامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ لَيْلَةٍ، إِلاَّ وَمَعَهَا رَجُلٌ ذُو حُرْمَةٍ مِنْهَا" (ابن حبان 5/176۔(2715)

"جو عورت اللہ تعالیٰ اورروز قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے۔اس کے لیے محرم کے بغیرایک دن کا سفربھی کرناحلال نہیں ۔"

6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ بلا شبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"لا تسافر المرأة بريدًا إلا ومعها محرم يحرم عليها "

(ابن حبان 5/176(2716)بیہقی 3/139،نصب الرایہ 3/ 11ابو داؤد کتاب المسانک (1725ابن خزیمہ 3/36(2526)مستدرک حاکم 1/442)

"عورت ایک برید بھی سفر نہ کرے مگر محرم کے ساتھ۔"

امام ابن الاثیر جزری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"أربعة فراسخ، والفرسخ: ثلاثة أميال عباسية"

 (عون المعبود 2/73تحفۃ الاحوذی 2/206النہایہ 1/116)

"ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور ایک فرسخ میں تین میل ہوتے ہیں یعنی ایک برید میں بارہ (12) میل ہوتے ہیں۔

امام ابو بکر ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:"ایک برید میں بارہ میل ہاشمی ہیں۔" (صحیح ابن خزیمہ4/136)

امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ برید آدھے دن کا سفر ہے(شرح مسلم للنووی 9/87)معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں چونکہ پیدل سفر ہوتے تھے اور 12میل تقریباً آدھے دن میں سفر طے ہوتا ہوگا۔

8۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:

( لا يَخلُوَنَّ رَجُلٌ بامْرَأةٍ , ولا تُسَافِرَنَّ امرَأةٌ إلاَّ وَمَعَهَا مَحْرَمٌ , فَقَامَ رَجُلٌ فقال يا رَسُولَ الله : اكـتُتبْتُ في غَزْوَةِ كَذا وكَذا , وَخَرَجَتْ امْرَأَتِي حَاجَّةً , قال : اذهَبْ فَحُجَّ مع امرَأتكَ )

(بخاری کتاب الجہاد والسیر (3006وکتاب جزاء الصید باب حج النساء (1862)مسلم کتاب الحج باب سفر المراۃ الی حج وغیرہ(1341)ابن حبان(2720)ابن خزیمہ(2529)مسنداحمد1/222،2/428،بیہقی3/139،طحاوی٢/112،مسند ابی یعلیٰ (2516،2391)مسند طیالسی (2732)ارواء الغلیل (995) ابن ماجہ کتاب المناسک(2900) 

"ہرگز کوئی مرد کسی(غیر محرم)عورت سے خلوت اختیار نہ کرے۔اور ہرگز کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا :اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا نام اس ،اس طرح غزوے میں لکھا گیا ہے اور میری عورت حج کرنے کے لیے نکلی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :تو چلا جا اپنی عورت کے ساتھ مل کر حج کر۔"

8۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"لا تسافر المرأة ثلاثا إلا ومعها ذو محرم " (صحیح ابن حبان 5/177،(2718)

"عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔"

9۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا:

"لِلْمَرْأَةِ أنْ تُسَافِرَ إلاّ مَعَ ذِي مَحْرَم. (صحیح ابن حبان 5/178،(2721)

عورت کومحرم کے بغیر سفر کرناحلال نہیں ۔"

10۔ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ:

"نهى رَسُوْل اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْأَة أن تسافر إِلَّا ومعها ذو محرم قَالَت: عَمْرَة فالْتَفَتَت عَائِشَة إِلَى بَعْض النِّسَاء وقَالَتْ: مَا لكلَكِن ذو محرم"(صحیح ابن حبان5/178،(2722)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا ہے۔ عمرہ بنت عبد الرحمٰن  رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کہتی ہیں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے بعض عورتوں کی طرف توجہ کر کے کہا:تم میں سے ہر ایک کا محرم نہیں ہے۔"

مذکورہ بالا دس احادیث صحیحہ صریحہ محکمہ سے واضح ہوا کہ عورت محرم کے بغیر مطلقاً سفر نہیں کر سکتی اور ان روایات میں کوئی تفادت نہیں ہے۔یہ مختلف احوال پر مبنی ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے مختلف مواقع پر سوالات کیے گئے کہ کیا عورت محرم کے بغیرتین دن کا سفر کر سکتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا نہیں۔ اسی طرح پوچھا گیا کیا عورت محرم کے بغیر دو دن یا ایک دن، یا بارہ میل یا مطلق طور پر سفر کر سکتی ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواب نفی میں دیا ۔

امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔

"قال البيهقي : كأنه صلى الله عليه وسلم سُئل عن المرأة تسافر ثلاثا بغير محرم فقال لا ، وسئل عن سفرها يومين بغير محرم فقال لا ، وسئل عن سفرها يوما فقال لا ، وكذلك البريد ، فأدى كل منهم ما سمعه . وما جاء منها مختلفا عن رواية واحدٍ ، فسمعه في مواطن ، فروى تارة هذا وتارة هذا ، وكله صحيح ، وليس في هذا كله تحديد لأقل ما يقع عليه اسم السفر ، ولم يرد صلى الله عليه وسلم تحديد أقل ما يسمى سفرا . "(بیہقی 3/139)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے عورت کے بارے سوال کیا گیا کہ وہ محرم کے بغیر تین دن سفر کر سکتی ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:نہیں۔ اور پوچھا گیا کہ وہ محرم کے بغیر دو دن سفر کر سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:نہیں۔ اور ایک دن کے متعلق پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:نہیں۔ ہر ایک نے جو یاد رکھا آگے پہنچا دیا اور ان اعداد میں سے کوئی عدد بھی سفر کے لیے حد نہیں ہے۔ اور توفیق اللہ کے ساتھ ہے۔"

امام ابن حبان  رحمۃ اللہ علیہ  نے نمبر 9پر ذکر کی گئی حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر یوں باب باندھا ہے۔

"ذكر البيان بأن المرأة ممنوعة عن أن تسافر سفراً قلَّت مدته أم كثرت إلا مع ذي محرم منها"

اس بات کا بیان کہ عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے سے منع کیا گیا ہے سفر کی مدت خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ ۔

اسی طرح نمبر 10 پر ذکر کی گئی حدیث ابی سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کا فرمان کہ"تم میں سے ہر ایک کا محرم نہیں ہے"پر تبصرہ کرتے ہوئے (کہ کوئی اس کا غلط مفہوم نہ لے لے کہ ہر عورت کا محرم تو نہیں ہوتا لہٰذا محرم کے بغیر سفر ہو سکتا ہے) لکھتے ہیں:

"أنّ ليس لكلكم ذو محرم تسافر معه فاتقوا الله ولا تسافر واحدة منكن إلا بذي محرم يكون معها"(صحیح ابن حبان 5/178)

"سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کی مراد یہ ہے کہ کیا تم میں سے ہر ایک کے لیے محرم  نہیں ہے کہ اس کے ساتھ سفر کرے؟اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ تم میں سے ہر ایک عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

"قال العلماء: اختلاف هذه الألفاظ لاختلاف السائلين، واختلاف المواطن، وليس في النهي عن الثلاثة تصريح بإباحة اليوم والليلة أوالبريد" (مسلم للنووی 9/87)

"علماء نے کہا ہے کہ احادیث میں جو مختلف الفاظ وارد ہوئے ہیں ان کا سبب سائلین اور جگہوں کا اختلاف ہے اور تین دن کی مسافت سے ممانعت میں ایک دن رات یا آدھے دن کے سفر کے جواز کی تصریح نہیں ہے۔ یعنی مختلف سوال کرنے والوں نے مختلف مقامات پر مختلف حالات میں سوال پوچھے کسی نے تین دن یا دودن رات یا آدھے دن کے بارے میں سفر میں محرم کے بغیر ممانعت فرمائی اور جس حدیث میں ہے کہ عورت تین دن کی مسافت میں محرم کے بغیر سفر نہ کرے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تین سے کم دنوں کا سفر عورت محرم کے بغیر کر سکتی ہے۔"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ  ان روایات کا خلاصہ یوں نقل فرماتے ہیں۔

"فالحاصل : أن كل ما يسمى سفرا تنهى عنه المرأة بغير زوج أو محرم ، سواء كان ثلاثة أيام أو يومين أو يوما أو غير ذلك ؛ لحديث ابن عباس الذي رواه مسلم : (لا تسافر امرأة إلا مع ذي محرم) وهذا يتناول جميع ما يسمى سفرا والله أعلم "

(شرح مسلم للنووی 9/87۔88)

"خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر وہ مسافت جسے سفر کہا جاتا ہے عورت کو خاوند یا دیگر محرم کے بغیر سفر کرنے سے روکا جائے خواہ وہ سفر تین دن کا ہو یا دو دنوں کا یاایک دن کا یا نصف دن کا یا اس کے علاوہ کا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی مطلق روایت کی بنا پر اور وہ پیچھے گزرنے والی مسلم کی روایات میں سے آخری ہے کہ "عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے"اوریہ حدیث ہر اس مسافت کو شامل ہے جسے سفر کہا جاتا ہے۔"

نیز دیکھیں (السراج الوھاج 1/400عون المعبود 2/72)

علامہ عبید اللہ رحمانی مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔

"ودل أيضا على تحريم سفر المرأة من غير محرم وهو مطلق في قليل السفر وكثيره وفي سفرالحج وغيره"

"اس حدیث (یعنی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی)میں محرم کے بغیر عورت کے سفر کی حرمت پر دلیل ہے اور یہ حدیث سفر کی قلت اور کثرت اور سفر حج وغیرہ کو مطلق طور پر شامل ہے۔"

نیز لکھتے ہیں کہ علامہ عینی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: "اس حدیث میں ہے کہ بلا شبہ عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ اور لفظ کی عمومیت  سفر کی عمومیت کو شامل ہے اس کا تقاضا ہے کہ محرم کے بغیر عورت کا سفر کرنا حرام ہے خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ حج کے لیے ہو یا کسی اور غرض سے اور اس بات کی طرف امام ابراہیم نخعی  رحمۃ اللہ علیہ  امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ ، امام طاؤس  رحمۃ اللہ علیہ  اور اہل ظاہرگئے ہیں۔(مرعاۃ المفاتیح 8/232)

علامہ عبد الرحمٰن مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"قال المباركفوري : ( وقال أكثر أهل العلم : يحرم لها الخروج في كل سفر طويلا كان أو قصيرا ولا يتوقف حرمة الخروج بغير المحرم على مسافة القصر ، لإطلاق حديث ابن عباس بلفظ : لا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم" (تحفۃ الاحوذی2/206)

"اہل علم کی اکثریت نے کہا ہے عورت کو ہر سفر میں (محرم کے بغیر )نکلنا حرام ہے سفر خواہ لمبا ہو یا چھوٹا۔ محرم کے بغیر نکلنے کی حرمت کو قصر کی مسافرت پر موقوف نہیں کیا جائے گا۔کیونکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث میں سفر کی مطلق طور پر ممانعت ہے۔ ان کی حدیث کے الفاظ ہیں۔"عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔"مولانا مبارک پوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس عبارت سے بھی واضح ہوا کہ عورت کسی طرح بھی محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی خواہ طویل ہو یا مختصر مشکل ہو یا آسان ہر حالت میں عورت اپنا محرم یعنی خاوند یا باپ بھائی یا بیٹا ، ماموں یا چچا غرض ہر وہ آدمی جس کے ساتھ اس کا نکاح حرام ہے۔ ان میں سے کسی کو ساتھ لے کر سفر پر نکلے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے تو اس مجاہد کو جس کا نام غزوہ میں لکھا گیا تھا محض اس بنا پر غزوے سے رخصت دے دی کہ اس کی عورت اکیلی حج پر جا رہی تھی اور اسے فرمایا اس کے ساتھ جا کر حج کرو اور احادیث صحیحہ میں حج کو عورت کا جہاد قراردیا گیا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   فرماتی ہیں:

"استأذنت الرسول صلي الله عليه وسلم  في الجهاد فقال لها : جهادكن الحج " (بخاری کتاب الجہاد والسیر باب جہاد النساء(2875)

"میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جہاد کے متعلق اجازت طلب کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تمھارا جہاد حج ہے۔"

جب عورت کا جہاد حج ہے اور اسے محرم کے بغیر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ مجاہد کو غزوے سے رخصت دے کر بیوی کے ساتھ حج پر جانے کے لیے کہا تو  دورحاضر میں مجاہدین کی بہنیں، مائیں ، بیٹیاں،اور بیویاں محرم کے بغیرکیسے روز دینی پروگراموں اور دعوتی میدانوں میں نکل سکتی ہیں اور اسی طرح یہ بھی یادرہے کہ اگر کسی سواری میں ایک عورت کا محرم موجود ہے اور دیگر محرم کے بغیر ہیں تو یہ بھی درست نہیں۔وہ اپنی عورت کا محرم ہے دیگر عورتوں کا نہیں۔اور جو مسئولہ یہ فتوی دیتی ہے کہ محرم کے بغیر دن رات کا سفر ہو سکتا ہے، اس کا یہ فتوی جہالت اور لاعلمی پر مبنی ہے۔اسے اپنے مؤقف سے رجوع کرنا چاہیے۔اور عورتوں کو محرم کے بغیر گاڑی میں بٹھا کر پروگراموں میں پہنچانے سے گریز کرنا چاہیے۔ورنہ عند اللہ سخت مجرم ہوگی۔ اسی طرح ہمارے بھائیوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کو سختی سے منع کریں کہ وہ محرم کے بغیر کسی سفر پرآمادہ نہ ہوں۔اگر کہیں جانا پڑے تو وہ اپنے کسی محرم کو ساتھ لے کر سفر کریں۔ دینی امور کے لیے تگ ودو ضرور کرنی چاہیے لیکن شریعت کے دائرہ کار میں رہ کر جو عورت دینی امور کے لیے اس طرح کوشش کرے کہ وہ شرعی حدود سے تجاوز کرے اور دوسری عورتوں کو بھی اس کام کے لیے دلیری دے اور ابھارے تو اس کا یہ فعل عبث و حرام اور سعی لا حاصل ہے وہ اجر کی بجائے گناہ خرید رہی ہے اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح صراط مستقیم پر قائم رکھے آمین۔

مذکورہ بالا احادیث صحیحہ اور آئمہ محدثین  رحمۃ اللہ علیہ  کی تصریحات سے یہ بات روز  روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ عورت محرم کے بغیر سفر نہیں کر سکتی سفر خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ۔حج کے لیے ہو یا جہاد کے لیے۔تبلیغی اجتماعات کے لیے ہو یا کسی اور غرض سے، محرم کا ساتھ ہونا ضروری و لازم ہے۔

         
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

آپ کے مسائل اور ان کا حل

جلد2۔كتاب الادب۔صفحہ نمبر 568

محدث فتویٰ

تبصرے