1۔مونچھوں والے شخص کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟
2۔کیاسیاہ خضاب لگانا درست ہے یاکس حالت میں لگانا چاہیے ۔ابن ماجہ کے اندر جو حدیث ہے کہ تمہاری عورتیں رغبت کرتی ہوں اور تمہارے دُشمن کے دل میں رعب پیدا ہو۔کیا یہ حدیث صحیح ہے کئی لوگوں نے اس حدیث پر عمل کیا ہے۔وضاحت فرمائیں۔
3۔داڑھی کتنی رکھنی چاہیے ایک مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ داڑھی صرف ایک مٹھ رکھنی چاہیے اس سےکم نہ ہو زیادہ رکھنا ثواب ہے۔قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
(عبدالحمید ،گاؤں سہالہ ڈاک خانہ ایوبیہ توحیدآباد علاقہ گلیات تحصیل وضلع ایبٹ آباد)
جواب۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
(متفق علیہ بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب اللباس باب الترجل(4421)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مشرکوں کی مخالفت کرو۔داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو پست کرو اورایک روایت میں ہے:داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو۔"
ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
(مسند احمد 5/264) اس حدیث کو حافظ ا بن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 10/354 میں اور علامہ عینی نے عمدۃ القاری 22/50 میں حسن قرار دیا ہے)
"ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے اور مونچھوں کو چھوڑتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم مونچھیں کاٹواور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔"
مندرجہ بالا تین احادیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کاٹنا یاپست کرنا اور داڑھی بڑھانا فطرت اسلام میں داخل ہے اور داڑھی کٹانا،مونچھیں بڑھانا فطرت اسلامی کو بدلنا اور اہل کتاب یہودونصاریٰ کی علامت ہے۔لہذا جو شخص مونچھیں بڑھاتا ہے،کاٹتا نہیں وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتاہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت عذاب الیم کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:
"پس جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں،ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے یا ان پر کوئی دردناک عذاب اُترے۔'
باقی رہا داڑھی کی مقدار کامسئلہ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانےکا حکم دیا ہے اور اس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ الفاظ مروی ہیں۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
"فحصل خمس ر وايات اعفوا واوفوا وارخوا وارجوا ووفروا ومعناها كلها تركها علي حالها هذا هو الظاهر من الحديث الذي يتقضي الفاظه "(شرح مسلم للنووی 1/129)
"پانچ روایات مروی ہیں اعفوا،اوفوا،ارخوا،ارجوا،ووفروا ان سب کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑدو۔اس حدیث کے ظاہری الفاظ اسی بات کاتقاضا کرتے ہیں۔
لہذاجب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانےکاحکم دیاہے اور اسے کاٹنا اہل کتاب کی علامت بتائی گئی ہے تو داڑھی کو اسی کے حال پر چھوڑ دیناہی منشائے ایزدی ہے۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے ہوتے ہوئے کسی دوسری بات کی طرف توجہ کرنا درست نہیں۔
بعض لوگ داڑھی تراشنے اور اسے کانٹ چھانٹ کرنے کے متعلق ترمذی شریف کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں:
(ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی الاخذ من اللیحۃ(2762) مشکوٰۃ کتاب اللباس باب الترجل(4439)
"عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کوعرض وطول سے کاٹتے تھے۔"
اگر یہ روایت درست ہوتی تو فی الجملہ داڑھی ترشوانے اور کانٹ چھانٹ کرنے پر استدلال صحیح ہوتا ہے لیکن یہ روایت انتہائی کمزور بلکہ من گھڑت ہے۔اس کی سند میں عمر بن ھارون نامی راوی ہے جس کے بارے میں حافظ الحدیث امام ذہبی فرماتے ہیں کہ امام عبدالرحمان بن مہدی،امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے۔امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ کذاب خبیث ہے۔اور امام صالح جزرہ رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح کہتے ہیں۔امام علی بن مدینی اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ ضعیف جداً یعنی بے حد ضعیف ہے۔امام ابو علی الحافظ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ متروک الحدیث ہے ۔امام ساجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس میں ضعف ہے۔امام ابو نعیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں یہ سن کر حدیثیں بیان کرتا ہے اور محض ہیچ ہے۔امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے۔(تہذیب التہذیب 4/316) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ عمرو بن ہارون کہ یہ روایت بالکل بے اصل ہے۔(ترمذی (2762) وتہذیب التہذیب 4/317) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کو موضوع یعنی من گھڑت کہتے ہیں(سلسلہ احادیث ضعیفہ 1/304) حیرت کی بات ہے اس بے اصل،من گھڑت اور بے بنیاد روایت سے نہ استدلال کیاجاتا ہے بلکہ اسے صحیح احادیث کے معارضہ میں پیش کیاجاتا ہے اور ایک ایسے نظریہ کو ثابت کیاجاتا ہے جس کا خیرالقرون میں سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔بعض لوگ اس بے بنیاد روایت کو دلیل بناکر داڑھی کاحلیہ اس طرح بگاڑ دیتے ہیں کہ کچھ داڑھی اوپر والے حصے سے مونڈ دی اور کچھ نیچے والے حصے سے اور چہرے پر ایک چھوٹی سی پٹی کی صورت میں چند بال رکھ لیے جو کھلم کھلا شریعت سے مذاق اور شیطان کی پیروی ہے۔اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور اظہار بیزاری ہے افسوس تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے اور اپنے آپ کو سکالر اور Educated سمجھنے والے لوگ اس سنت متواترہ کانہ صرف مذاق اُڑاتے ہیں بلکہ اسے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خارج گردانتے ہیں۔اعاذناالله منهم
ايك مسلم کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(جو کہ مبنی بروحی ہوتا ہے)سے بڑھ کر کسی اور چیز کی کیاضرورت ہوسکتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دیاجائے اور اس کی کانٹ چھانٹ نہ کی جائے۔جیساکہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح اوپر گزر چکی ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔
جواب۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں کو خود بھی خضاب لگاتے تھے اور اسکی ترغیب بھی دیاکرتے تھے۔اسی طرح خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین ا پنے سفید بالوں کو رنگا کرتے تھے۔شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب ممنوع وحرام ہے،اس کے علاوہ مہندی یعنی سرخ،زرد،سیاہی مائل سرخ وغیرہ جائز ومشروع خضاب ہیں۔سیاہ رنگ کی ممانعت میں کئی ایک احادیث ہیں جن کا ان شاء اللہ بالتفصیل تذکرہ ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کے متعلق اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے:
(مسند احمد 6/296۔319۔322 بخاری کتاب اللباس باب مایذکرفی الشیب(5897) ابن ماجہ 2/1196) ابن ابی شیبہ 8/434)
"عثمان بن عبداللہ نے کہا:میں اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آیا تو انہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے ایک بال نکالا جس کو مہندی اور کتم کا خضاب لگاہوا تھا۔"
کتم ایک ایسی بوٹی ہے جو نرم زمین میں اُگتی ہے۔اس کے پتے زیتون کی پتوں کی طرح ہوتے ہیں۔چرخی وغیرہ پر چڑھ کر بلند ہوتی ہے مرچ کے دانے کی طرح اس کا پھل ہوتا ہے اس کے اندر گٹھلی ہوتی ہے جب اسے کوٹا جائے تو سیاہ رنگ ہوجاتا ہے اور اس کے پتوں کا عرق نکال کر ایک اوقی کی مقدار پیا جائے تو سخت قے آتی ہے۔اگر کسی کو کتا کاٹ جائے تو اس کے علاج کے لیے مفید ہے اور اس کی اصل یہ ہے کہ جب اسے پانی میں ڈال کر پکایاجائے تو اس سے سیاہی نکلتی ہے جس سے لکھا جاتا ہے۔ملاحظہ ہو(زاد المعاد 4/366)
(مسند احمد 4/163 نسائی 8 140 ابوداود (4208) 4/86)
"ابورمشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داڑھی مبارک کو مہندی لگائی ہوئی تھی۔"
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
(احمد 2/17،110۔بخاری کتاب الوضوء باب غسل الرجلین فی النعلین (166) مسلم کتاب الحج(1187) نسائی(2359) ابوداود کتاب المناسک باب وقت الحرام (1772) ابن ماجہ (2322) ابن ابی شیبہ 8/442)
"ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا کہ وہ زردرنگ کا خضاب لگاتے تھے۔میں بھی یہی پسند کرتا ہوں۔"
علاوہ ازیں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کی نفی منقول ہے جیساکہ مسند احمد 3/100،108۔مسلم(2341) ابوداود(4209) ابن ماجہ 2/1198 میں ہے۔اس کےمتعلق حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 10/354 میں طبری کے حوالہ سے لکھا ہے۔
"وحاصله أن من جزم أنه خضب - كما في ظاهر حديث أم سلمة، وكما في حديث ابن عمر الماضي قريبا أنه صلى الله عليه وسلم خضب بالصفرة حَكَى مَا شَاهِده، وَكَانَ ذَلِكَ فِي بَعْض الْأَحْيَان. وَمَنْ نَفَى ذَلِكَ كَأَنَسٍ فَهُوَ مَحْمُول عَلَى الْأَكْثَر الْأَغْلَب مِنْ حَاله."خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس نے بالجزم یہ بات کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا جیسا کہ اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ظاہر حدیث میں ہے اور جس طرح ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زرد خضاب لگایا،جو کہ قریب ہی پیچھے گزر چکی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انہوں نے مشاہدہ کیا بیان کردیا اوریہ کبھی کبھی ہوتا تھا۔اورجس نے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح خضاب کی نفی کی ہے وہ اکثر اور اغلب حالت پر محمول ہے ۔یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی خضاب بھی لگایا کرتے تھے اور اکثر نہیں بھی لگاتے تھے۔
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ زاد المعاد 4/367 میں رقم طراز ہیں:
اگریہ کہا جائے کہ صحیح بخاری میں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب نہیں لگایا تو کہا جائے گا اس کا جواب امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے دیاہے۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کہا۔انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ(اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ،ابورمشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خضاب کی شہادت دی ہے اور جس نے مشاہدہ کیا وہ مشاہدہ نہ کرنے والے کی منزلت پر نہیں ہوسکتا(یعنی مشاہدہ کرنے والے کی بات زیادہ قابل قبول ہوگی) امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اور ان کے ساتھ محدثین کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خضاب ثابت کیا ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کا انکار کیا ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی یہ بات درست نہیں اس لیے کہ صحیح سند کے ساتھ یہ بات ثاب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا جیسا کہ اوپر مذکورہ ہوا۔
"ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:داڑھیاں بڑھاؤ،مونچھیں ترشواؤ اور اپنی سفیدی کو بدلو اور یہود ونصاریٰ کی مشابہت نہ کرو۔"
یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(مسند احمد 2/240،260،309،401۔بخاری کتاب احادیث الانبیاء (3462) وکتاب اللباس باب الخضاب(5899)مسلم کتاب اللباس والزینہ(80)النسائی 8/137(5087)ابوداود کتاب الترجل باب فی الخضاب(4203) ابن ماجہ 2/1196 ابن ابی شیبہ 8/431 عبدالرزاق 11/154)
"یہودی وعیسائی(اپنے بالوں کو)رنگتے نہیں۔تم ان کی مخالفت کرو۔"
(نسائی کی روایت میں فاصبغوا یعنی تم رنگو کے الفاظ بھی ہیں)
ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے بوڑھے افراد جن کی داڑھیاں سفید تھیں،کے پاس آئے تو فرمایا:اے انصار کی جماعت(داڑھیاں) سرخ کرو اور زرد کرو اور اھل کتاب کی مخالفت کرو۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری 10/354 میں اور علامہ یمنی رحمۃ اللہ علیہ نے عمدۃ القاری 22/50 میں اس کی سند کو حسن قرار دیا۔
فی الخضاب (4204) ترمذی کتاب اللباس باب ماجاء فی الخضاب(1753) ابن ماجہ 2/1196)عبدالرزاق 11/153) ابن ابی شیبہ 8/433 موارد الظمان (1475)
"ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک جس چیز کے ذریعے تم اپنی سفیدی کو بدلتے ہوئے،ان میں سے سب سے اچھی مہندی اور کتم ہے۔"
(ابوداود (4211) ابن ماجہ 2/1198 ابن ابی شیبہ 8/432 ابن سعد 1/440 قال الالبانی فی تحقیق المشکاۃ 2/266 اواسنادہ جید)
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی گزرا جس نے مہندی کا خضاب لگایا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کس قدراچھا ہے ۔پھر ایک اور آدمی گزرا جس نے مہندی اور کتم ملا کرلگایا ہوا تھا۔فرمایا:یہ اس سے بھی اچھا ہے ۔پھر ایک آدمی اور گزراجس نے زرد خضاب لگایا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ ان سب سے اچھا ہے۔"
مذکورہ بالا روایات میں بعض میں مطلقاً خضاب لگانے کا حکم ہے لیکن رنگ کی قید نہیں اور بعض روایات میں رنگ کا ذکر موجود ہے تو اصول شرعیہ کی رو سے مطلق کو مقید پر محمول کیاجائے گا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کے کفارہ میں گردن آزاد کرنے کا ذکر فرمایا:
"جو لوگ ا پنی عورتوں سے ظہار کرلیں پھر ا پنے قول کی طرف رجوع کریں تو ایک گردن آزاد کریں۔"
اس آیت میں مطلق گردن کے آزاد کرنے کاذکر ہے لیکن یہ ذکر نہیں کہ وہ غلام مومن ہو یا کافر۔اسی طرح قسم کے کفارہ میں بھی فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فرمایا۔(المائدہ:89)
لیکن قتل خطا کے کفارہ میں فرمایا:
یہاں مومن غلام آزاد کرنے کا فرمایا۔تو پہلے دو کفاروں میں بھی مومن غلام ہی مراد ہوگا کیونکہ وہ مطلق ہیں۔یہ آیت مقید ہے۔اورمطلق کومقید پر محمول کیا جاتاہے۔اس طرح جن احادیث میں صرف رنگنے کا ذکر ہے،ان کو ان احادیث پر منطبق کیا جائے گا جن میں جائز رنگوں کا طرز عمل ہے ۔
جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
(مسلم کتاب اللباس والزینہ باب استحباب خضاب الشیب بصفرۃ او حمرۃ وتحریمۃ بالسواد(79)نسائی(8/138 (5091) ابوداود (4204)ابن ماجہ 2/1197 ابن ابی شیبہ 8/432 عبدالرزاق 11/154 حاکم 3/244 بیہقی 7/310)
"فتح مکہ والے دن(ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد) ابوقحافہ کو لایا گیا۔ان کا سر اور داڑھی ثفامہ (سفید پھولوں والادرخت ہے) کی طرح سفید تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سفیدی کو بدلو اور سیاہی سے اجتناب کرو۔"
مسند احمد 3/316 ،322 میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انہیں ان کی بعض عورتوں کی طرف لے جاؤ۔وہ ان کی سفیدی کو بدلیں اور سیاہی سے بچاؤ۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"اصح قول کے مطابق سیاہ خضاب حرام ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ سیاہ خضاب مکروہ تنزیہی ہے۔مختار قول حرمت کا ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔سیاہ خضاب سے بچو۔"
علامہ عبدالرحمان مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"واجتنبوا السواد دليل واضح على النهي عن الخضاب بالسواد " (تحفۃ الاحوذی 3/57)"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان "اجتنبوا السواد" سیاہ خضاب کی حرمت پر واضح دلیل ہے۔"
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"ثم ان المادون فيه مقيد بغير السواد لما ارجه مسلم من حديث جابر انه صلي ا لله عليه وسلم قال: غَيِّرُوهُ وَجَنِّبُوهُ السَّوَادَ"(فتح الباری 6/499)
"سیاہ خضاب کے علاوہ خضاب لگانے کی اجازت ہے اس لیے کہ امام مسلم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکلا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کی سفیدی کو بدلو اور اسے سیاہی سے بچاؤ۔"
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ مزید اپنی کتاب"المجموع شرح المہذب"1/323 میں فرماتے ہیں کہ:
"سر اور داڑھی کے بالوں کو سیاہ خضاب لگانے کی مذمت پر محدثین کا اتفاق ہے۔"
اس کے بعد فرماتے ہیں:
"صحیح بلکہ درست یہ ہے کہ سیاہ خضاب حرام ہے۔"
علامہ سفارینی نے نقل کیا ہےکہ:
"ويكره بالسواد اتفاقا نص عليه "(شرح ثلاثیات مسند احمد 2/53)
"سیاہ خضاب کی کراہت پر اتفاق ہے ۔اس پر نص شرعی موجود ہے"
انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
(مسند احمد 3/247) صحیح الجامع الصغیر(4169،2/767)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سفید بالوں کو بدلو اور ان کو سیاہی کے قریب نہ کرو۔"
(مجمع الزوائد 5/160 طباخری 5/163 وقال الھشیمی وھو حدیث حسن)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:ہم ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سفید داڑھیاں دیکھ کر فرمایا۔تمھیں کیا ہے تم انہیں رنگتے کیوں نہیں۔کہا گیا کہ یہ ناپسند کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اے مسلمانو)لیکن تم رنگ بدلو اور ہم سیاہی سے بچیں گے۔"
علامہ ہثیمی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند حسن ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بالوں کی سفیدی کو بدلنے سے کراہت کرنا یہودیوں کا کام تھا۔مسلمان سیاہ خضاب سے اجتناب کرتا اور دیگر خضاب پسند کرتا ہے۔
(مسند احمد 1/273 ۔نسائی 8/138(5090) ابوداود (4212) بیہقی 7/311)
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخرزمانے میں ایک قوم ہوگی جو کبوتر کے پوٹوں کی طرح سیاہ خضاب لگائیں گے ۔وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گے۔"
یہ حدیث بھی سیاہ خضاب کی ممانعت پر صراحتاً دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں وعید شدید ہے۔
"عن ابن عباس رضي الله تعالي عنه ان النبي صلي الله عليه وسلم قال:يكون في آخر الزمان قوم يسودون أشعارهم لا ينظر الله إليهم "(مجمع الزوائد 5/164 المعجم الاوسط للطبرانی (3815)اسنادہ جید)
"ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آخرزمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو اپنے بال سیاہ کریں گے ۔اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر(رحمت) نہیں کرے گا۔"
(مجمع الزوائد 5/166)
"ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے سیاہ خضاب لگایا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کا چہرہ سیاہ کرے گا۔"
مذکورہ بالا چھ احادیث سے معلوم ہوا کہ سیاہ خضاب کی شریعت میں بڑی مذمت آئی ہے اور اس پر شدید وعید فرمائی گئی۔اس لیے یہ حرام ہے اور گناہ کبیرہ ہے علامہ ان حجر مکی نے سیاہ خضاب کو اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر 1/261 میں کبیرہ گناہوں میں لکھا ہے۔علاوہ ازیں داڑھی یا سر کے بالوں کو شادی بیاہ،یا کسی کاروباری سلسلے کے لیے سیاہ کرنا دھوکہ اور فراڈ ہے ۔اپنے بڑھاپے کو چھپانا اور جوانی ظاہر کرنا ہے۔اور دھوکہ دہی اور اصلیت چھپانا بھی شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں حرام ہے۔
جولوگ سیاہ خضاب نکاح یا جہاد کے موقعہ پر لگانے کا جواز پیش کرتے ہیں وہ ابن ماجہ کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں،جو اس سند سے مروی ہے:
(ابن ماجہ کتاب اللباس باب الخضاب بالسواد(3625)
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین خضاب جو تم لگاتے ہو وہ سیارہ رنگ کا ہےجس سے تمہاری عورتیں تمہاری طرف زیادہ رغبت رکھیں گی اور تمہارے دُشمن کے سینوں میں ہیبت ناک ہے۔"
یہ روایت ضیعف ہے اس کی چند وجوہات ہیں۔
1۔دفاع سبن دغفل سدوسی ضعیف راوی ہے۔
2۔عبدالحمید بن صیفی لین الحدیث ہے ۔
3۔عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ الراسبی کے بارے تقریب(ص:10) میں لکھا ہے مقبول ہے اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تقریب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
((السادسة: مَن ليس له من الحديث إلا القليل ولم يثبت فيه ما يترك حديثه من أجله، وإليه الإشارة بلفظ: مقبول، حيث يتابع، وإلا فلين الحديث))"یعنی چھٹی قسم وہ ہے کہ جس راوی کی روایتیں بالکل تھوڑی ہوں لیکن اس کے بارے میں جرح قادح ثابت نہ ہو متابعت کی صورت میں اس کی روایت قبول ورنہ لین الحدیث یعنی کمزورراوی ہے۔چونکہ اس کی متابعت نہیں اس لیے یہ روایت ضعیف ہے۔"
4۔ عبدالحمید کے والد صیفی بن حبیب کو بھی تقریب میں مقبول کہا گیا ہے۔اس کی متابعت بھی نہیں ملی۔
5۔اس میں انتقطاع بھی ہے امام ذہبی میزان 2/14 میں راقم ہیں:
"عبدالحميد بن زياد بن صيفي بن حبيب عن ابيه عن جده قال البخاري لا يعرف سماع بعضهم من بعض"اس سند کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بعض راویوں کا بعض سے سماع معروف نہیں لہذا یہ روایت کسی طرح بھی حجت نہیں ہوسکتی۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب