السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غالباً بخاری میں ہے کہ ایک جونیہ عورت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا، جب آپ اس عورت کے پاس گئے تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی، اس کے بعد آپ نے اسے کچھ دے دلا کر واپس کر دیا ، اس واقعہ کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ہدف بنایا جاتا ہے ، اس واقعہ کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ واقعہ بخاری اور مسلم حدیث کی دونوں کتابوں میں مروی ہے ، تمام روایات کی روشنی میں اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے: ’’ قبیلہ جون کا ایک سردار مسلمان ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے قبیلے میں ایک عورت بیوہ ہو گئی ہے اور وہ آپ سے نکاح پر آمادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات معلوم کرنے کے بعد اس سے نکاح کرنے کی رضا مندی فرما دی اور نکاح بھی کر لیا پھر اس کے وطن سے مدینہ طیبہ بلوالیا، جو صاحب اسے لے کر آئے تھے انہوں نے ’’بنو ساعدہ‘‘ کی ایک حویلی میں ٹھہرایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دے دی، آپ وہاں تشریف لے گئے اور منکوحہ ہونے کی حیثیت سے اس کے کمرے میں داخل ہوئے اور جب اس سے کوئی بات کی تو اس نے یہ کلمہ کہا: ’’ میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں‘‘ یہ سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے ایک ایسی ذات کی پناہ مانگی ہے جو پناہ مانگنے اور پناہ دینے کے قابل ہے، چنانچہ اس کے بعد آپ نے اسے طلاق دے دی اور کپڑوں کے جوڑے دے کر واپس اس کے گھر بھجوانے کا حکم دے دیا۔ ‘‘[1]
اب رہا یہ سوال کہ اس خاتون نے پناہ کیوں مانگی؟ اس کے متعلق بعض ناقابل اعتبار روایات میں کہا گیا ہے کہ کچھ ازواج مطہرات نے اسے سکھا دیا تھا کہ ’’ أعوذ باللہ منک ‘‘ کا کلمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند ہے، ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ یہ کلمہ سن کر اسے طلاق دے دیں، لیکن یہ روایات واقدی اور کلبی جیسے راویوں کی ہیں جو اپنے جھوٹ اور رفض میں مشہور ہیں، لہٰذا ان پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی امہات المومنین سے یہ توقع ہو سکتی ہے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ خاتون دماغی طور پر نارمل نہیں تھیں، بخاری کی روایات سے اس امر کی تائید ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ باپ کے کئے ہوئے نکاح پر راضی نہ ہو ، جیسا کہ صحیح بخاری کی ایک روایت سے اشارہ ملتا ہے۔[2]
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتون کے مذکورہ الفاظ سن کر اسے طلاق دے کر حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ اسے کپڑوں کے جوڑے دے کر اپنے گھر بھجوا دو۔‘‘ [3] واقعہ تو اسی قدر ہے ، اس میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے یا آپ کو ہدف تنقید بنانے کی کوئی بات نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری ، الطلاق: ۵۲۵۴، ۵۲۵۵، ۵۲۵۶، صحیح مسلم ، الاشربه: ۵۱۹۵۔
[2] صحیح بخاری ، الطلاق : ۵۲۵۶۔
[3] صحیح بخاری، الطلاق: ۵۲۵۵۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب