السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے معاشرہ میں لڑکی کی شادی کے معاملہ میں لڑکے والوں کی طرف سے پہل کا انتظار کیا جاتا ہے، چنانچہ اس انتظار میں کچھ لڑکیاں جوانی کی حد کو عبور کر جاتی ہیں، اس کے متعلق شریعت میں کیا ہدایات ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہمارے معاشرے میں جو صورت رائج ہے یہ کسی حد تک فطرت کے ہم آہنگ ہے یعنی لڑکے والوں کی طرف سے ابتدا ہوتی ہے۔ وہ اپنی طلب کا اظہار پہلے کرتے ہیں، لیکن اسے حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں۔ اگر کسی شخص کو کوئی مناسب رشتہ نظر آتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ لڑکی والا خود پیغام دینے میں ابتدا کرے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ آدمی کا اہل خیر کو اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ پیش کرنا ۔‘‘ [1]
اس سلسلہ میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جب ان کی لخت جگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں تو انہوں نے خود حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بیٹی کا رشتہ پیش کیا، انہوں نے فرمایا کہ میں اس سلسلہ میں غور و فکر کر کے آپ کو آگاہ کروں گا، اس کے بعد انہوں نے ’’ نہ‘‘ میں جواب دے دیا۔ پھر انہوں نے ان کا رشتہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پیش کیا تو وہ خاموش رہے، انہوں نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر کے اس رویے سے دکھ ہوا تاہم چند دنوں کے بعد رسول اللہ کی طرف سے پیغام نکاح آیا تو انھوں نے ان سے بیٹی کا رشتہ کر دیا۔
نکاح کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرمائی کہ آپ کی بیٹی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا تھا، اس لئے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز افشا نہیں کرنا چاہتا تھا، اگر آپ اسے ترک کر دیتے تو میں ضرور اس رشتہ کو قبول کر لیتا۔ [2]
اس طویل حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکی والے بھی رشتے کے سلسلہ میں پہل کر سکتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اگر مناسب رشتہ نظر آئے تو لڑکے والوں کی طرف سے پہل کا انتظار نہ کریں بلکہ خود رشتے کی پیشکش کر دیں، اس میں اللہ کی طرف سے خیر و برکت ہو گی، لیکن انتظار میں غلو کرنا جائز نہیں۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری ، النکاح باب نمبر ۳۴۔
[2] صحیح بخاری ، النکاح : ۵۱۲۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب