السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا ایک بھائی اور دو بہنیں ہیں ، میں صاحبِ جائیداد ہوں، یتیم بھتیجا میرے پاس رہتا ہے اور میری خدمت بھی کرتا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنی جائیداد میں سے ۳/۱ اس کے نام کر دوں کہ میرے مر نے کے بعد وہ اس کا مالک ہو گا، کیا ایسا کرنا شرعی طور پر درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میراث کے احکام نازل ہو نے سے پہلے اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لے وصیت کرنا ضروری تھا، جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۱۸۰ میں ہے، احکام مواریث کے نازل ہو نے کے بعد یہ وصیت منسوخ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :’’اللہ تعالیٰ نے اب ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہذا کسی وار ث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں ہے۔ ‘‘
البتہ ایسے رشتہ داروں کے لے وصیت کی جا سکتی ہے جو شرعی طور پر وارث نہ ہوں، اسی طرح راہ خیر میں خرچ کر نے کے لیے بھی وصیت کی جا سکتی ہے لیکن یہ وصیت زیادہ سے زیادہ ایک تہائی جائیداد تک کی جا سکتی ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک ثلث کی وصیت کر سکتے ہو اور یہ بھی بہت زیادہ ہے ۔[1]
صورت مسؤلہ میں بھتیجا یتیم ہے اور اس کا باپ فوت ہو چکا ہے ، دوسرے بہن بھائیوں کی موجودگی میں اس یتیم بھتیجے کو وراثت کے طور جائیداد سے کچھ نہیں ملتا، ایسے حالات میں اگر اس کے ساتھ ہمدردی کر تے ہوئے اسکے حق میں کل جائیداد سے ایک تہائی کی وصیت کر دی جائے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں بلکہ ایسا کرنے سے دوگنا ثواب ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الفرائض، ۶۷۷۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب