سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(290) مسئلہ وراثت۔5

  • 20551
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 617

سوال

(290) مسئلہ وراثت۔5

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد صاحب فوت ہوئے تو ان کے دو بیٹے زندہ تھے ، اور ایک بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا، فوت ہو نے والے بیٹے کے دو بیٹے یعنی مرحوم کے دو پوتے ہیں، میرے والد نے ان کے حق میں وصیت کی کہ انہیں کل جائیداد سے تیسرا حصہ دیا جائے، میری والدہ بھی زندہ ہے، مرحوم کی چوبیس بیگہ زمین شرعی طور پر کیسے تقسیم کی جائے ، قرآن و سنت کی روشنی کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرطِ صحت سوال صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے وصیت کا اجرا ہو گا جو مرحوم کی دو پو توں کے لیے ہے، کیونکہ قرآن کریم کے مطابق تقسیم میراث سے پہلے قرض کی ادائیگی اور وصیت کا نفاذ ضروری ہو تاہے، مرحوم کی چوبیس بیگہ زمین ہے اس کا تیسرا حصہ آٹھ بیگے مرحوم کے دونو ں پو توں کے لیے ہوں گی باقی سولہ بیگوں میں سے آٹھواں حصہ یعنی دو بیگے اس کی بیوہ کے لیے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر تمہاری اولاد ہے تو پھر ان بیویوں کو تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا۔ ‘‘[1]

بیوہ کا حصہ نکالنے کے بعد جو باقی بچے گا وہ دو بیٹوں کو برابر تقسیم کر دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’مقررہ حصہ والوں کو حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ داروں کو دیا جائے ۔‘‘[2]سات ، سات بیگے دونوں بیٹوں کو مل جائیں گے۔ (واللہ اعلم )


[1] النساء :۱۲۔

[2] صحیح بخاری ، الفرائض :۶۷۳۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:271

محدث فتویٰ

تبصرے