سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(289) مسئلہ وراثت۔4

  • 20550
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 605

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی کے تین وارث زندہ ہیں ، بیوی، بیٹی اور پوتا ۔ اس نے ان کے حق میں وصیت نامہ لکھا ہے کہ میری کل جائیداد سے ۳۳فیصد بیوی کو ۳۳ فیصد بیٹی کو اور ۴۴ فیصد پوتے صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا جائے، کیا یہ وصیت جائزہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 کسی انسان کو ورثا کی موجودگی میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنا جائز نہیں۔ مال کی تقسیم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ضابطہ میراث نازل فرمایا ہے، مرنے کے بعد اس ضابطہ میراث کے مطابق اس کا مال تقسیم ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے کہ تم اپنے مال سے ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو، تاکہ تمہارے نیک اعمال کے زیادہ ہونے کا باعث ہو۔‘‘[1]

اس حدیث کے پیش نظر انسان اپنے مال سے زیادہ سے زیادہ تیسرے حصہ تک وصیت کر سکتاہے۔ لیکن وہ وصیت بھی کسی غیر وارث کے لیے ہو۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہےاب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت جائز نہیں۔[2]صورت مسؤلہ میں دو غیر شرعی چیزیں ہیں، ایک تو اپنے تمام مال کی وصیت کی ہے جو کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ دوسرے شرعی ورثا کو وصیت کی گئی ہے جو مندرجہ بالا حدیث کی خلاف ورزی ہے۔ ان دو غیر شرعی باتوں کی وجہ سے یہ وصیت کالعدم ہو گئی، اس کی اصلاح ضروری ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’اگر کسی کو وصیت کر نے والے کی طرف سے طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہواور وہ ان کے ورثاکے درمیان صلح کروا دے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ ‘‘[3]

چونکہ اس وصیت میں اپنے ورثا کے متعلق طرفداری اورحق تلفی کی گئی ہے لہذا اس کی اصلاح ضروری ہے ، اس کی اصلاح یہ ہے کہ اسے کالعدم قرار دیا جائے اور مر نے کے بعد درج ذیل شرح کے مطابق اس کی جائیداد تقسیم ہو گی۔

1             اولاد کی موجودگی میں اس کی بیوی کو کل جائیداد سے آٹھواں حصہ دیا جائے گا۔

2             اس کی بیٹی چونکہ ایک ہے اس لیے وہ اس کی جائیداد سے نصف کی حق دار ہو گی۔

3             پو تا عصبہ ہے لہٰذا ورثا سے جو مال بچے گا وہ پو تے کو مل جا ئے گا۔ سہولت کے پیش نظر اس کی جائیداد کے کل چوبیس حصے ہوں گے ، ان میں سے آٹھواں یعنی تین حصے بیوی کو ، آدھا یعنی بارہ حصے بیٹی کو اور باقی نو حصے پوتے کو مل جائیں گے۔ یہ تقسیم اس صورت میں ہو گی جب صاحب جائیداد کی وفات کے وقت اس کے مذکورہ بالا ورثا زندہ ہوں ، اگر کوئی رشتہ دار اس کی زندگی میں فوت ہو گیا تو وہ خو د بخود اسکی جائیداد سے محروم ہو جائے گا۔ (واللہ اعلم)


[1] ابن ماجه، الوصایا:۲۷۰۹۔

[2] ترمذی ، الوصایا:۱۲۱۲۔

[3] البقرہ ۱۸۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:270

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ