سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(288) وراثت کا مسئلہ۔3

  • 20549
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-07
  • مشاہدات : 695

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا، اس کی دو بیٹیاں اور ایک بہن ہے، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا، کیا بہن کو حصہ دیا جائے گا یا مقررہ حصہ بیٹیوں کو دینے کے بعد باقی ترکہ بھی ان بیٹیوں پر رد کر دیا جائے گا، قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ دیا جائے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال کل ترکہ سے بیٹیوں کو دو تہائی دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو سے زیادہ ہوں تو انہیں مال متروکہ کا دو تہائی ملے گا۔ ‘[1] اس آیت کریمہ میں اگر چہ دو سے زیادہ لڑکیوں کا دو تہائی حصہ بیان ہوا ہے تاہم اگر دو لڑکیاں ہیں تو ان کے لیے بھی دو تہائی ہے ، جیسا کہ اس آیت کے شان نزول سے معلوم ہو تا ہے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہو گئے اور ان کی دو لڑکیاں تھیں مگر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے مال پر ان کے ایک بھائی نے قبضہ کر لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں لڑکیوں کو اس آیت کے پیش نظر دو تہائی دلوایا تھا۔[2]

علاوہ ازیں اس سورت کے آخر میں ہے کہ اگر مر نے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہیں تو ان کے لیے کل مال سے دو تہائی ہے۔[3] لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہیں تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی کی وارث ہوں گی، بہر حال اگر میت کی دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں انہیں دو تہائی دیا جا تا ہے۔ صورت مسؤلہ میں بیٹیوں کامقررہ حصہ ۳/۲ نکال کر باقی ۳/۱ بہن کو دیا جائے گا کیونکہ بہن، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ مع الغیر ہو تی ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔

بہنیں ، بیٹیوں کے ہمراہ بطور عصبہ وراثت پاتی ہیں۔[4]اس کے تحت انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہما کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے کہ انھوں نے ایک بیٹی کو نصف، پوتی کو چھٹا حصہ اور باقی ماندہ ترکہ بہن کو دیا تھا۔ [5] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے شارح بخاری ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ بہنیں، بیٹیوں کے ہمراہ عصبہ بنتی ہیں ۔ اور بیٹیوں سے بچا ہوا ترکہ پاتی ہیں، اس بات میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ، البتہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ بہنیں محروم ہوں گی اور باقی ماندہ ترکہ بھی بیٹیوں پر رد کر دیا جائے گا لیکن حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کا موقف مرجوح ہے ۔ [6]بہر حال مرحوم کی جائیداد کو تین حصوں میں تقسیم کر لیا جائے، دو حصے دونوں بیٹیوں کو اور ایک حصہ بہن کو بحیثیت عصبہ دے دیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] النساء :۱۱۔

[2] ابو داؤد ، الفرائض، ۲۸۹۲۔

[3] النساء :۱۷۶۔

[4] صحیح بخاری، الفرائض، باب نمبر ۱۲۔

[5] صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۴۲۔

[6] فتح الباری، ص ۱۳ ، ج ۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:269

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ