سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(275) اسٹیٹ بینک میں ملازمت کرنا

  • 20536
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 845

سوال

(275) اسٹیٹ بینک میں ملازمت کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اسٹیٹ بینک میں ملازمت کرنا بھی ایسے ہی ناجائز ہے جس طرح دیگر کمرشل بینکوں میں ناجائز ہے، وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہمارے ہاں اسٹیٹ بینک حکومت پاکستان کے تحت ایک خود مختار ادارہ ہے جو اپنے لیے خود ہی قواعد و ضوابط وضع کرتا ہے ، حکومت کے تمام مالی معاملات کو کنٹرول کرنا اور ان کا حساب رکھنا اسی کے ذمے ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر بھی اس کے پاس ہوتے ہیں اور ملکی کرنسی جاری کرنا بھی اسی کے دائرہ اختیار میں ہے۔ یہی بینک قرضوں پر شرح سود کا اعلان کرتا ہے، دیگر تما م کمرشل بینک اس کی تعین کر دہ شرح سود کے مطابق کام کرنے کے پابند ہو تے ہیں۔ نیز حکومتی معاملات چلانے کے لیے جو رقم درکار ہوتی ہیں وہ رقم بھی یہی اسٹیٹ بینک جاری کر تا ہے اور اس پر وہ سود بھی وصول کرتا ہے ۔ بہر حال یہ بینک بھی سودی معاملات سے خالی نہیں بلکہ دوسرے بینکوں کے لیے سودی پالیسی یہی اسٹیٹ بینک وضع کرتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ سود کی لپیٹ میں درج ذیل قسم کے لوگ آتے ہیں۔

1۔سود دینےو الا2۔سود لینے والا3۔سود لکھنے والا4۔سودی معاملات میں گواہ بننے والا۔ یہ لوگ تو بلا واسطہ سود کی لپیٹ میں آتے ہیں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، کھاتے بنانے والے اور سودی معاملات پر گواہ بننے والے، سب پر لعنت فرمائی ہے ، نیز فرمایا کہ یہ سب لوگ گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ [1]

بینک میں کام کرنے والے کچھ لوگ بالواسطہ طور پر اس لعنت زدہ زندگی کی لپیٹ میں آتے ہیں مثلاً بینک کو سہولیات فراہم کرنے والے چوکیدار اور درجہ چہارم کے ملازمین وغیرہ۔ اس بنا پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اس شعبہ میں ملازمت نہ کی جائے جو سودی کاروبار یا سودی پالیسی وضع کرنے سے متعلق ہے البتہ دیگر شعبہ جات مثلاً نوٹ چھاپنے کے شعبہ میں ملازمت کر لی جائے تو چنداں حرج نہیں۔ بہتر ہے کہ زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے کوئی اور ذریعہ تلاش کر لیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] مسلم، المساقاة:۴۰۹۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:257

محدث فتویٰ

تبصرے