سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(270) لکی کمیٹی کی شرعی حیثیت

  • 20531
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 2978

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے علاقہ میں لکی کمیٹی کا کاروبار عروج پر ہے ، چند ساتھی مل کر ماہانہ کمیٹی ڈالتے ہیں پھر قرعہ اندازی کے ذریعے جس کا نام نکل آتا ہے ، اسے موٹر سائیکل دی جا تی ہے اور اس کے بعد وہ کوئی قسط وغیرہ بھی ادا نہیں کر تا، اس کے متعلق کچھ علما کا موقف ہے کہ ایسا کاروبار نا جائز ہے جبکہ کچھ اہل علم حضرات اسے جائز کہتے ہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال و حرام کے متعلق تمیز نہ کرنے کی جو پیشین گوئی فرمائی تھی وہ دور حاضر میں حقیقت کا روپ دھا رکر ہمارے سامنے آ رہی ہے، آپ نے فرمایا تھا’’میری امت پر ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے درمیان حلال و حرام کی تمیز اٹھ جائے گی، انسان اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ وہ حلال استعمال کر تا ہے یا حرام کھا رہا ہے۔[1]

ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ بڑی لا پر وائی اور ڈھٹائی کے ساتھ حرام کھا رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بایں الفاظ اس بے حسی کے متعلق فرمایا :’’ایک وقت آئے گاکہ لوگ سود خوری میں مبتلا ہوں گے ، عرض کیا گیا کہ سب لوگ اس میں مبتلا ہوں گے ، فرمایا جو اس سود سے بچنے کی کوشش کریں گے انہیں بھی سود کی گرد و غبار اور اس کا دھواں ضرور پہنچے گا۔ ‘‘[2] چنانچہ ہمارے معاشرے میں ایسی ایسی سودی سکیمیں رائج ہو رہی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جا تی ہے۔

اس وضاحت کے بعدہم تفصیل کے ساتھ صورت مسؤلہ کا جائزہ لیتے ہیں ، ہمارے ہاں کمیٹی سسٹم تین طرح کا ہے ، یعنی سادہ کمیٹی ، بولی والی کمیٹی اور لکی کمیٹی

سادہ کمیٹی:چند احباب مل کر اپنی تھوڑی تھوڑی پس انداز رقم کو ماہ بماہ کسی کے پاس جمع کر تے رہتے ہیں پھر ہر مہینے پہلے سے طے شدہ پروگرام یا قرعہ انداز کے ذریعے تمام جمع شدہ رقم ممبران میں سے کوئی ایک لے لیتا ہےیہ جسے رقم مل جا تی ہے ، اس کا نام آئندہ طے شدہ پروگرام یا قرعہ انداز ی میں شامل نہیں کیا جا تا، البتہ اپنی پس انداز رقم ہر ماہ ادا کر تا رہتا ہے، اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ یہ ایک امداد باہمی کا ذریعہ ہے، اس طریقہ سے تھوڑی تھوڑی رقم یکمشت مل جا تی ہے جسے کسی ہنگامی مصرف میں خرچ کیا جا سکتا ہے۔

بولی والی کمیٹی:اس کی صورت یہ ہو تی ہے کہ چند آدمی مل کر کمیٹی ڈالتے ہیں، پھر ایک مقررہ تاریخ پر اس جمع شدہ رقم کی بولی لگائی جا تی ہے، جو ممبر سب سے کم بولی لگائے اسے جمع شدہ رقم دے دی جا تی ہے ۔ مثلاً اگر جمع شدہ رقم پچاس ہزار روپیہ ہے تو اس کی چالیس ہزار بولی لگانے والے کو چالیس ہزار دے دیا جا تاہے، باقی دس ہزار رقم تمام ممبران آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں ، اس کے ناجائز اور حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ یہ ایک کاروبار ہے، اس میں امداد باہمی کا جذبہ نہیں پایا جا تا، یہ کاروبار اس لیے نا جائز ہے کہ اس کی بنیاد نا جائز ذرائع سے مال کھانےپر ہے، جس کی حرمت اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان فرمائی ہے۔

’’اےایمان والو ! تم آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقوں سے مت کھاؤ۔ ‘‘[3]

مذکورہ کمیٹی کا کاروبار اس لیے ناجائز ہے کہ نقد تھوڑی سی رقم وصول کر کے آئندہ زیادہ رقم ادا کرنا ہے ، سود بھی یہی ہے کہ ایک آدمی تھوڑی رقم نقد وصول کر کے آئندہ معین مدت پر زیادہ رقم ادا کر تا ہے ، چونکہ یہ ایک کاروبار ہے اور کاروبار میں جب کرنسی کا تبادلہ ہو تا ہے تومساویانہ طور پر ہونا چاہیے، کمی بیشی کے ساتھ ایک ہی جنس کا تبادلہ شرعاً حرام ہے جس کی حرمت صریح اور واضح نصوص سے ثابت ہے۔

لکی کمیٹی:اس میں چند ممبران کمیٹی ڈالتے ہیں اور کمیٹی کا اہتمام کرنے والے کی طرف سے یہ پیشکش ہو تی ہےکہ قرعہ اندازی کے ذریعے جس کا پہلے نام نکل آیا اسے موٹر سائیکل دی جائے گی اور آئندہ اسے کمیٹی جمع کرانے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا، اس طرح طے شدہ ایک حد تک اس پیشکش سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے، اس کے ناجائز ہونے میں بھی کوئی شک نہیں کیونکہ اگر دو ہزار ماہانہ کمیٹی ہے اور کسی کا نام پہلی ہی کمیٹی کی ادائیگی پر نکل آتا ہے تو اسے ساٹھ ہزار کی موٹر سائیکل صرف دو ہزار روپیہ جمع کرانے میں مل جا تی ہے، اسے یہ فائدہ ایک اتفاقی طور پر ملا ہے حالانکہ تمام ممبران اس میں برابر کے شریک ہو تے ہیں۔

یہ جوئے کی ایک شکل ہے جسے قرآن کریم نے واضح طور پر حرا م کیا ہے، دور جاہلیت میں تیروں (ازلام) کے ذریعے قسمت آزمائی کی جا تی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ آیت نمبر ۹۰ میں حرام کیا ہے اور لکی کمیٹی میں قرعہ اندازی کے ذریعے جوا کھیلا جا تا ہے لہٰذا اس قسم کے کاروبار سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، البیوع: ۲۰۵۹۔

[2] مسند احمد، ص۴۹۴،ج۲۔

[3] النساء: ۲۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:252

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ