السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شک کے دن روزہ رکھنے سے کیا مرا دہے ؟ کیا اس دن کا روزہ نہیں رکھا جا سکتا؟ اس کے متعلق کوئی حدیث ہے تو نشاندہی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث کے مطابق ماہ رمضان کا تین طریقوں سے پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ 1۔رمضان کا چاند خود دیکھ کر ۔ 2۔کسی با اعتماد عادل شخص کی گواہی پر۔ 3۔ اگرا نتیس کو چاند نظر نہ آئے تو ماہ شعبان کے تیس دن پورے کر لینے سے ، اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہونے کی بنا پر چاند نظر نہ آ سکے تو احتیاط کے پیش نظر اگلے دن کا روزہ رکھنا شک کے دن کا روزہ رکھنا ہے۔ اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا حرام ہے کیونکہ رمضان کی آمد یقینی نہیں بلکہ اس کی بنیاد محض شک اور احتیاط پر ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیق کے طور پر حضرت عمارسے بیان کیا ہے کہ جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا ، اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی ۔[1]
حدیث کی دوسری کتابوں میں یہ روایت تفصیل کے ساتھ با سند بیان ہوئی ہے، حضرت صلہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کر تے ہیں کہ ہم حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے اور چاند نظر آ نے کی خبر واضح نہ ہو نے کی وجہ سے وہ دن مشکوک تھا ، ہمارے سامنے بکری کا گوشت پیش کیا گیا تو مجلس میں سے کچھ لوگ ایک طرف ہو گئے ، اس وقت حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے اس دن کا روزہ رکھا ہے اس نے حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کی ہے۔ ‘‘[2]
اس حدیث سے یوم الشک کی وضاحت ہو جا تی ہے نیز پتہ چلتا ہے کہ اس دن کا روزہ رکھنا حرا م اور نا جائز ہے کیونکہ اس میں رمضان کی آمد یقینی نہیں۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری، الصوم ، باب نمبر ۱۱۔
[2] ابو داؤد، الصیام: ۲۳۳۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب