سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) حجر اسود کو چومنے کی حکمت

  • 20481
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-04
  • مشاہدات : 773

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حج یا عمرہ کرنے والا حجر اسود کو چومنے کا بڑا اہتمام کرتا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟ آیا قرآن و حدیث میں کوئی حکمت بیان ہوئی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ انعام کی بجا آواری میں یہی حکمت کافی ہے کہ ہمارے آقا اور خالق کائنات نے یہ کام کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت فرمایا تھا: ’’ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے اور میرے لئے کسی قسم کے نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘[1]

ہمارے لئے تو یہ حکمت کافی ہے کہ اسے بوسہ دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قیامت کے دن یہ حجر اسود اس طرح آئے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن کے ذریعے یہ دیکھے گا اور زبان بھی ہو گی جس کےذریعے بول کر ایسے شخص کے لئے گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ اس کا بوسہ لیا ہو گا۔ [2]

لہٰذا آرام و سکون اور محبت و چاہت کے ساتھ حجر اسود کا بوسہ لینا چاہیے۔اس سلسلہ میں دھکم پیل سے کام نہ لیا جائے، اگر بوسہ نہ لیا جائے تو ہاتھ لگا کر اسے چوم لیا جائے، اگر ہاتھ بھی نہ لگ سکے تو دور سے اشارہ کرنے کی صورت میں ہاتھ کو چومنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري، الحج: ۱۵۹۷۔

[2] مسند أحمد ص ۲۴۷ ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:213

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ