سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(216) کنکریاں مارنے کے لیے کسی کو وکیل بنانا

  • 20477
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 816

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنے بیٹے کے ہمراہ حج پر گئی تھی اور میں نے ہجوم کی وجہ سے خود کنکریاں مارنے کے بجائے اپنے بیٹے کو کہہ دیاکہ وہ کنکریاں میری طرف سے مار دے ، حالانکہ میں خود بھی مار سکتی تھی لیکن صرف ہجوم کے ڈر سے ایسا کیا ہے، اب میرے لئے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جمرات کو کنکریاں مارنا مناسک حج سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا اور خود اس پر عمل کیا ہے،ان کے متعلق فرمان نبوی ہے: ’’ بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار کو اللہ تعالیٰ کا ذکرقائم کرنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ ‘‘[1]

اس لئے جمرات کو کنکریاں مارنا اللہ کی عبادت ہے جس سے انسان اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے، اگر ہجوم کا اندیشہ ہے تو اسے مؤخر کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں نیابت صحیح نہیں ہے کہ خود مارنے کے بجائے کسی دوسرے کو یہ کام کرنے کے متعلق کہہ دیا جائے، ہاں اگر کوئی بیمار ہے یا کوئی عورت حاملہ ہو اور اسے اپنے حمل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے حالات میں کسی کو وکیل بنایا جا سکتا ہے، بصورت دیگر مرد اور عورت دونوں کو خود کنکریاں مارنی چاہئیں۔

صورتِ مسؤلہ میں سائلہ نے استطاعت کے باوجود اپنے بیٹے کو کنکریاں مارنے کے لئے وکیل مقرر کیا ہے جبکہ وہ خود اس کی استطاعت رکھتی تھی، اس کے باوجود اس نے خود کنکریاں نہیں ماریں، اس لئے ہمارے رجحان کے مطابق احتیاط یہ ہے کہ اس کوتاہی کی تلافی کے لئے فدیے کا ایک جانور ذبح کر کے مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دے جیسا کہ سورۃ مائدۃ آیت نمبر ۹۵ میں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] سنن أبي داؤد ، المناسك : ۱۸۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:210

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ