السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ حج استطاعت کے باوجود ادا نہیں کرتے، اس لئے ہمیں اس کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں کہ حج فرض ہے یا ایک نفلی عبادت؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صاحب استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو بیت اللہ کی طرف جانے کی استطاعت رکھتے ہیں، حج فرض کر دیا ہے اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تمام دنیا سے بے نیاز ہے۔‘‘[1]
اس آیت کریمہ میں کلمہ ’’ علی ‘‘ سے حج کی فرضیت واضح ہو تی ہے نیز آیت کے آخری الفاظ ’’ جو کوئی کفر کرے‘‘ میں تارک حج کو کافر قرار دیا گیا ہے، اس انداز سے حج کی فرضیت اور اس کی تاکید کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ اس بناء پر جو شخص حج کی فرضیت کا عقیدہ نہیں رکھتا وہ بالاجماع کافر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حج بیت اللہ کو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا ہے چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: کلمہ شہادت کہنا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا بشرطیکہ وہاں جانے کی طاقت ہو۔‘‘[2]
واضح رہے کہ بیت اللہ تک جانے کی استطاعت سے مراد تین چیزیں ہیں:
٭ بدنی اعتبار سے تندرست ہو، ایسا بیمار یا بوڑھا نہ ہو جو حج نہ کر سکتا ہو۔
٭ گھر میں اخراجات کے علاوہ وہ مکہ مکرمہ آنے جانے اور وہاں رہائش ، کھانے پینے کے اخراجات کا مالک ہو۔
٭ راستہ پرامن ہو کہ اس کے مال اور جان کے تحفظ کی گارنٹی ہو۔
٭ عورتوں کے لئے استطاعت میں ایک مزید چیز بھی شامل ہے کہ اس کے ساتھ محرم موجود ہو، اس بناء پر ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ جب اس پر حج فرض ہو جائے تو حتی الامکان اسے ادا کرنے میں جلدی کرے، اگر وہ بلا عذر تاخیر کرے گا تو گنہگار ہو گا۔ ( واللہ اعلم)
[1] آل عمران: ۹۷۔
[2] صحیح مسلم ، الایمان : ۱۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب