سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(187) زیورات سے مال کا حساب

  • 20448
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-02
  • مشاہدات : 840

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 جو زیورات بازار سے لیے جا تے ہیں، ان میں سے زکوۃ ، بل پر لکھے ہوئے وزن پر ہو گی یا سو نے کے اضافی وزن پر زکوۃ دی جائے گی ، اس کے متعلق وضاحت کریں، کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بنیادی طور پر زکوۃ سو نے پر ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچ جائے ۔ سونے کا نصاب ۲۰ دینارجو کہ ساڑھے سات تولہ کے برابر ہو تے ہیں، رائج الوقت اعشاری نظام کے اعتبار سے ۸۵ گرام وزن بنتا ہے ، اگر سونا اتنی یا اس سے زیادہ مقدار میں ہے تو اس سے چالیسواں حصہ زکوۃ ادا کی جا تی ہے ۔ دور حاضرمیں جو زیورات زر گر حضرات تیار کر تے ہیں ان میں درج ذیل چار چیزیں ایسی شامل ہو تی ہیں جو سونا نہیں ہو تیں اگر چہ ان کی قیمت سونے کے برابر ہی وصول کی جا تی ہے۔

1             سونا نرم اور کمزور ہو تا ہے، اسے سخت اورمضبوط کر نے کے لیے اس میں تانبے یا چاندی کی ملاوٹ کی جا تی ہے تاکہ زیورات میں مضبوطی آ جائے یہ ملاوٹ ایک تولہ سو نے میں نصف ماشہ سے لے کر دوماشہ تک کہلا تی ہے ، یہ ملاوٹ ہو نے کے حساب سے ہی فروخت کی جا تی ہے۔

2             زیورات کو جوڑ لگا نے کے لیے جو ٹانکا تیار کیا جا تا ہے وہ جست یا چاندی کا ہو تا ہے ، سونے کا ٹانکا کمزور ہو تا ہے ۔ اس لیے کسی دوسری دھات سے انہیں جوڑلگایا جا تا ہے۔ اکثر زر گر حضرات کا کہنا ہے کہ جوڑ لگا تے وقت وہ دھات اڑ جا تی ہے لیکن یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے بہر حال اس ٹانکے کو بھی سونے کے بھاؤ فروخت کیا جا تا ہے۔

3             زیورات میں کچھ موتی ایسے ہو تے ہیں جنہیں وزن کر تے وقت علیحدہ کر دیا جا تاہے۔لیکن کچھ باریک موتی ایسے ہو تی ہیں جنہیں الگ کر نے سے زیور کی خوبصورتی ختم ہو جا تی ہے اس لیے انہیں سونے کے ساتھ ہی وزن کیا جا تا ہے اور وہ سو نے کے بھاؤ ہی فروخت ہو تے ہیں۔

4             زیورات میں چمک پیدا کر نے کے لیے اسے کئی مراحل سے گزارا جا تا ہے۔ ہر مرحلہ میں اسے رگڑنے ، تراشنے اور چھیلنے سے وزن میں کمی آ جا تی ہے اسے زر گر حضرات کی اصطلاح میں ’’پالش‘‘ کا نام دیاجا ت اہے۔ زیورات کے اصل وزن میں پالش کا وزن الگ جمع کیا جا تا ہے ۔ حالانکہ یہ کوئی وزن نہیں ہو تا بلکہ یہ وہ کمی ہو تی ہے جو مختلف مراحل گزر نے کے بعد عمل میں آ تی ہے، اساضافی وزن کو بھی سونے کے بھاؤ دیا جا تا ہے ، جب زیور واپس کرنا ہو تا ہے تو ایک رتی یا دو رتی فی ماشہ کٹوتی یہی ہو تی ہے جو صارف کے کھاتے میں ہو تی ہے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بل پر لکھا ہوا تمام وزن سو نے کا نہیں ہو تا بلکہ اس میں کچھ مزید چیزیں بھی شامل ہو جا تی ہیں جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے اس لیے کسی ماہر اور تجر بہ کار زرگر سے صافی سونے کا حساب لگا کر اس سے زکوۃ ادا کی جائے اور زکوۃ کا نصاب ۸۵ گرام ہے۔ جس سے چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوۃ ادا کی جائے۔ (واللہ اعلم)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:187

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ