السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں غرباء کی ضرورت کے پیش نظر فطرانہ کی قیمت ادا کر دی جا تی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے دور میں فطرانہ کی قیمت ادا کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ اس وقت فطرانہ میں جنس ہی ادا کی جا تی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ کا مقصد ’’طمعۃ للمساکین‘‘ (مساکین کی خوراک) ٹھہرایا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ فطرانہ میں اشیا ء خوردنی ادا کی جا ئیں، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم صرف جنس ہی سے فطر انہ ادا کر نے کے قائل ہیں۔ محدثین کرام میں سے کسی نے بھی اس بات کی صراحت نہیں کی ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ فطرانہ میں قیمت بھی دی جا سکتی ہے بلکہ محدث ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے قیمت ادا کر نے کے خلاف عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ، ص ۸۹، ج ۴) محدث العصر علامہ عبید اللہ رحمانی لکھتے ہیں کہ صدقہ الفطر کی قیمت نہ دی جائے بلکہ جنس سے ہی ادا کیا جائے البتہ کسی عذر کے پیش نظر قیمت دی جا سکتی ہے ۔ [1]
عذر کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ ایک شخص روزانہ بازار سے آٹا خرید کر استعمال کر تا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ با زار سے غلہ خرید کر صدقہ فطر ادا کرے ، بلکہ اسے چاہیے کہ بازار کے نرخ کے مطابق اس کی قیمت ادا کر دے۔
[1] مرا عاة المفاتیح، ص ۱۰۰، ج ۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب