سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(97) سجدہ سہو سلام سے پہلے یا بعد میں

  • 20358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 3528

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نماز میں بھول چوک کی وجہ سے جو سجدہ سہو کیا جا تاہے وہ سلام پھیرنے سے پہلے ہے یا بعد، اگر بعد میں ہے تو کیا دوبارہ سلام پھیرنا ہو گا، اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شریعت کی اصطلاح میں سہو سے مراد دو سجدے ہیں جو دوران نماز بھول کر کمی بیشی کر دینے یا شک میں پڑجانے کی صورت میں کیے جا تے ہیں، شرعی طور پر اس کے تین اسباب ہیں ۔

1۔ بھول کر نماز میں کمی کر دینا جیسے نماز ظہر میں چار رکعت کے بجائے دو پر سلام پھیر دیا جائے۔

2۔ بھول کر نماز میں اضافہ کر دینا جیسے عصر کی نماز میں چار کے بجائے پانچ رکعت پڑھ دینا۔

3۔ دورانِ نماز شک و شبہ میں مبتلا ہوجانا کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار ادا کی ہیں۔

دوران نماز اس قسم کی غلطی معاف ہے تاہم سہو و نسیان کی وجہ سے ہونے والی غلطی کی تلافی کے لیے شریعت نے دو سجدہ ہائے

سہو کو مشروع قرار دیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور بحیثیت انسان وہ بھی دوران نماز بھول جاتے تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے:’’میں بھی ایک انسان ہوں، تمہاری طرح بھول کا شکار ہو جا تا ہوں، اس لیے اگر میں دورانِ نماز بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا دیا کرو۔ ‘‘[1]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر دوران نماز پانچ مرتبہ بھو ل کا شکار ہوئے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے اس امت کو مسائل سہو کے متعلق آگاہ فرمائیں ، آپ کے بھول جانے کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ نماز عصر میں چار رکعت کے بجائے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔[2]

2۔ نماز ظہر میں چار رکعت کے بجائے پانچ رکعت پڑھا دیں۔ [3]

3۔ نماز عصر میں تین رکعت پر سلام پھیر دیا۔ [4]

4۔ نماز مغرب میں دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا۔[5]

5۔ نماز ظہرمیں درمیان والا تشہد پڑھے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوگئے۔[6]

الغرض سجدہ سہو کے احکام انتہائی اہم ہیں، بعض حضرات ایسے مقام پر سجدہ سہو چھوڑ دیتے ہیں جہاں اس کا ادا کرنا ضروری ہو تا ہے جبکہ بعض دفعہ ایسی جگہ پر سجدہ سہو کر دیا جا تاہے جہاں قطعاً اس کی ضرورت نہیں ہو تی۔ (ہم نے اس کی تفصیل شرح بخاری میں ذکر کی ہے ) صورت مسؤلہ میں بعض اوقات سجدہ سہو سلام سے پہلے کرنا ہو تا ہے اور بعض اوقات سلام پھیرنے کے بعد انہیں اد ا کرنا ہو تا ہے۔اہل علم کے اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں ، ہمارے رجحان کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرنے کے دو مقام ہیں :

1۔ جب دوران نماز کسی قسم کی کمی ہو جائے تو سجودِ سہو سلام سے پہلے ہوں گے تاکہ دوران نماز ہی اس کمی کی تلافی ہو جائے جیسا کہ حضرت عبد اللہ ابن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی دو رکعت میں بیٹھے بغیر ہی کھڑے ہو گئے، جب آپ اپنی نماز کو پورا کرنے کے قریب تھے تو دو سجدے کیے، اس کے بعد آپ نے سلام پھیرا ۔[7]

2۔ جب دورانِ نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش کے باوجود کسی جانب کا فیصلہ نہ ہو سکے پھر یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے اگر نماز کو مکمل کیا جائے تو اس میں بھی سلام سے پہلے سجدہ سہو کیے جائیں جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب تم میں سے کسی کو دورانِ نماز شک پڑ جائے ، اسے معلوم نہ ہو کہ تین رکعت پڑھی ہیں یا چار تو شک کو ایک طرف رکھ کر یقین پر بنیاد رکھے پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے۔ ‘‘[8]

یقین پر بنیاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تین یا چار کے متعلق شک ہے تو تین پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کی جائے کیونکہ تین یقینی ہیں اور شک چوتھی میں ہے کہ وہ پڑھی ہے یا نہیں؟

سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کے تین مقام ہیں :

1۔ اگر دوران نماز کسی قسم کا اضافہ ہو جائے مثلاً ظہر کی چار رکعت کے بجائے پانچ پڑھی جائیں تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ظہر کی پانچ رکعات پڑھا دیں، عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آیا نماز میں کچھ اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپ نے پوچھا کیامطلب؟ عرض کیاگیا کہ آپ نے پانچ رکعات پڑھی ہیں تو سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دو سجدے کیے۔[9]

ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ سہو کرنے کے بعد سلام پھیرا۔ [10]

اس حدیث کے مطابق حکم عام ہے ، خواہ نماز میں اضافہ کا علم دوران نماز ہو یا سلام کے بعد، اس بنا پر مطلق طور پر اضافہ کی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرنا منا سب ہے۔

٭نماز کا کچھ حصہ ابھی باقی تھا کہ سلام پھیر دیا، اس صورت میں باقی ماندہ حصے کو ادا کرنے کے بعد سلام پھیر دیا جائے، پھر دو سجدے بطور سہو کیے جائیں، اس کے بعد سلام پھیرا جائے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ظہر یا عصر کی نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر دیا ، یاد دلانے کے بعد آپ نے بقیہ نماز ادا کی اور سلام پھیرا، پھر دو سجدے سہو کیے۔ بعض اوقات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا جا تا کہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تھا؟ تو جواب دیتے کہ مجھے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کے ذریعے معلوم ہوا کہ آپ نے سلام پھیرا تھا۔ ‘‘[11]

٭ اگر دوران نماز تعدا رکعا ت کے متعلق شک پڑ جائے تو پھر کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدہ سہو کرنا ہو گا جیساکہ حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ درستگی کی کوشش کرے پھر اپنی راجح کوشش کے مطابق اپنی نماز پوری کرے، اس کے بعد سلام پھیر کر آخر میں دو سجدے کرے۔ ‘‘[12]

اگر دوران نماز دو سہو اس طرح ہو جائیں کہ ایک سہو کا تقاضا سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنے کا ہو جبکہ دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کا ہو تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کر لیے جائیں پھر سلام پھیرا جائے مثلاً ایک شخص نماز ظہر ادا کر تے ہوئے دوسری رکعت میں تشہد بیٹھنے کے بجائے تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہو گیا جبکہ اس نے اسے دوسری رکعت خیال کیا پھر اسے کوشش کے بعد یاد آیا کہ یہ تیسری رکعت ہے اس کے بعد وہ تشہد بیٹھے پھر ایک رکعت پڑھ کر دوسرا تشہد پڑھے اس صورت میں سجدہ سہو کر کے سلام پھیر دے ایسی صورت میں نماز میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، الصلوٰة،۴۰۱۔

[2] صحیح بخاری، السہو:۱۲۲۹۔

[3] صحیح بخاری، السھو:۱۲۲۶۔

[4] صحیح مسلم، المساجد:۱۲۹۳۔ 

[5] صحیح بخاری، السھو:۱۲۲۷۔

[6] بخاری، السھو:۱۲۲۶۔

[7] بخاری، السھو:۱۲۲۵۔

[8] صحیح مسلم، المساجد:۵۷۱۔

[9] بخاری، السھو:۱۲۲۶۔

[10] بخاری، الصلوٰة:۴۰۱۔

[11] بخاری ،الصلوٰة:۴۸۲۔

[12] صحیح بخاری، الصلوٰة:۴۰۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:122

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ