سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) جو نماز عید باجماعت نہ پڑھ سکے

  • 20347
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 572

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جو شخص کسی عذر کی وجہ سے نماز عید با جماعت ادا نہ کر سکے، اس کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے کہ وہ کتنی رکعت ادا کرے ؟ نیز وہ کہاں ادا کرے ، عید گاہ میں یا اپنے گھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ کسی عذر کی وجہ سے نماز عید با جماعت ادا نہ کر سکیں، انہیں کیا کرنا چاہیے، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ منقول نہیں البتہ علما امت نے اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کی ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’جو شخص امام کے ساتھ نماز عید نہ پڑھ سکے وہ چار رکعت پڑھے۔[1]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ [2]

جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد دلائل سے ثابت کیا ہے کہ ایسا شخص امام کی طرح دو رکعت ادا کرے گا۔ انھوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، حضرت انس رضی اللہ عنہ کے عمل، حضرت عکرمہ اور حضرت عطا کے اقوال سے استدلال کیا ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’یہ ہم مسلمانوں کی عید ہے ‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو عنوان میں ذکر کیا ہے۔ لیکن ذخیرہ احادیث میں مجھے یہ الفاظ دستیاب نہیں ہو سکے البتہ اس معنی کے الفاظ ابو داؤد حدیث نمبر ۲۴۱۹ میں ہیں۔ اس حدیث کی مطابقت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں عید کی اضافت عام مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ نماز عید چند لو گوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ وہ سب کے لیے ہے، چونکہ عید کی عبادت نماز عید ہے اس لیے اس میں سب لو گوں کا حصہ ہے خواہ امام کے ساتھ اسے ادا نہیں کر سکے ۔(شرح تراجم بخاری )مقام زاویہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حکم پر ان کے غلام ابن ابی عتبہ نے ان کے اہل و عیال کو جمع کیا اور سب کو نماز عید شہر والوں کی طرح تکبیرات زوائد کے ساتھ پڑھائی۔ [3]

حضرت عکرمہ نے کہا’’دیہاتوں والے لوگ جمع ہو کر اسی طرح دو رکعت نماز عید ادا کریں گے، جیسا کہ امام شہر میں نماز عید پڑھاتاہے۔‘‘ [4]

حضرت عطا نے فرمایا کہ جس کی نماز عید رہ جائے وہ دو رکعت پڑھے۔ [5]

ان تمام دلائل کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں ذکر کیا ہے۔ [6]

ہمارا رجحان بھی یہی ہے کہ جس کی نماز عید رہ جائے وہ دو رکعت تکبیراتِ زوائد کے ساتھ ادا کرے خواہ چند ساتھی مل کر جماعت کا اہتمام کر لیں یا انفرادی طور پر پڑھ لیں، اسی طرح خواہ عید گاہ میں پڑھیں یا اپنے گھر ادا کریں، بہر حال انہیں پڑھنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)


[1] مصنف ابن ابی شیبه ، ص ۱۸۳،ج۲۔

[2] فتح الباری، ص ج۴۔

[3] مصنف ابن ابی شیبه، ص ۱۸۳،ج۲۔

[4] مصنف ابن ابی شیبه، ص ۱۹۱،ج۲۔

[5] مصنف ابن ابی شیبه، ص ۱۹۲،ج۲۔

[6] بخاری، العیدین باب نمبر ۲۵۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:115

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ