السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
عورت نے جن کپڑوں میں ایام گزارے ہوں، کیا ان میں نماز پڑھنا جائز ہے جبکہ ان پر خونِ حیض کے نشانات وغیرہ نہ ہوں، قرآن و حدیث کے مطابق اس مسئلہ کی وضاحت کردیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں کچھ عورتیں مخصوص ایام میں خاص لباس پہن لیتی تھیں، طہارت و نظافت کے پیش نظر مخصوص لباس استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’طہر کے لباس کے علاوہ مخصوص ایام میں الگ لباس استعمال کرنا۔ ‘‘ پھر انھوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی عادت بیان کی ہے کہ وہ مخصوص ایام میں الگ لباس استعمال کرتی تھیں۔ [1]
تاہم کسی عورت نے ان دنوں عام معمول کا لباس پہنا ہے، ان دنوں کے لیے مخصوص لباس استعمال نہیں کیا تو بھی جائز ہے چونکہ یہ خون نجس ہو تا ہے ، اگر کپڑے پر لگ جا ے تو اسے دھو کر اس میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت اسما ء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑے کو لگ جانے والے خونِ حیض کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ اس کپڑے کو مَل کر دھو لیا جائے پھر اسے پہن کر نماز پڑھ لے۔[2]
اس کی مزید وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے ، انھوں نے فرمایا:’’ہم میں سے جب کسی کو حیض آتا تو وہ پاک ہونے پر انگلیوں سے مل کر کپڑے سے خون اتار دیتی تھی پھر وہاں سے کپڑا دھو لیتی اور بعض اوقات صرف پانی ڈالنے سے خون نہیں اتر تا۔ اس صورت میں کپڑے کو رگڑ کر اچھی طرح صاف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس کے بعد اگر اس کے نشانات باقی رہ جائیں تو قابل معافی ہیں۔ زیادہ شک میں پڑنے کی ضرورت نہیں، کپڑا پاک ہونے کی صورت میں اسے پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری، الحیض: ۳۲۳۔
[2] صحیح بخاری، الوضو: ۲۲۷۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب